بزمِ سخن
اب کیا سوچے کیا ہونا ہے جو ہو گا اچھا ہو گا
چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
دشت تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
مجھے بیخودی یہ تو نے بھلی چاشنی چکھائی
ایسا بننا سنورنا مبارک تمہیں کم سے کم اتنا کہنا ہماراکرو
دل پہ زخم کھاتے ہیں جان سے گزرتے ہیں







