خوشبو

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو

پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو
کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو

کوئی تو ہو جو مرے تن کو روشنی بھیجے
کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو

گلابی پاؤں مرے چمپئی بنانے کو
کسی نے صحن میں مہندی کا باڑھ اگائی ہو

کبھی تو ہو مرے کمرے میں ایسا منظر
بہار دیکھ کے کھڑکی مسکرائی ہو

وہ سوتے جاگتے رہنے کا موسموں کا فسوں
کہ نیند میں ہوں مگر نیند بھی نہ آئی ہو

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو


urdubazm

 

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW