بشیربدر – مجموعۂ کلام: آسمان
اپنی کھوئی وہئی جنتیں پا گئے زیست کے راستے بھولتے بھولتے
موت کی وادیوں میں کہیں کھو گئے تیری آواز کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے
مست و سرشار تھے کوئی ٹھوکر لگی آسماں سے زمیں پر یوں آ گئے
شاخ سے پھول جیسے کوئی گر پڑے رقص آواز پر جھومتے جھومتے
کوئی پتھرّ نہیں ہوں کہ جس شکل میں مجھ کو چاہو بنایا بگاڑ کرو
بھول جانے کی کوشش تو کی تھی مگر یاد تم آ گئے بھولتے بھولتے
آنکھیں آنسو بھری پلکیں بوجھل گھنی جیسے جھیلیں بھی ہوں نرم سائے بھی ہوں
وہ تو کہیے انہیں کچھ ہنسی آ گئی، بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے
اب وہ گیسو نہیں ہیں جو سایہ کریں اب وہ شانے نہیں جو سہارا بنیں
موت کے بازوؤ تم ہی آگے بڑھو تھک گئے آج ہم گھومتے گھومتے
دل میں جو تیر ہیں اپنے ہی تیر ہیں، اپنی زنجیر سے پابہ زنجیر ہیں
سنگریزوں کو ہم نے خدا کر دیا، آخرش، رات دن پوجتے پوجتے
Add Comment