بشیربدر – مجموعۂ کلام: آسمان
دل کی دہلیز پہ یادوں کے دیئے رکھے ہیں
آج تک ہم نے یہ دروازے کھلے رکھے ہیں
اس کہانی کے وہ کردار کہاں سے لاؤں
وہی دریا ہے وہی کچےّ گھڑے رکھے ہیں
ہم پہ جو گزری نہ بتایا نہ بتائیں گے کبھی
کتنے خط اب بھی ترے لکھے رکھے ہیں
آپ کے پاس خریداری کی قوت ہے اگر
آج سب لوگ دکانوں میں سجے رکھے ہیں
ٹوٹے ہوئے ستار کے سب تار گس گئے
بارش ہوئی کہ درد کے نغمے برس گئے
کیسی سیاہ رات تھی دہلیز پر کھڑی
وہ مسکرا دیئے تو اُجالے برس گئے
شادابیوں کے دور کا انجام یہ ہوا
اب کے تو بوند بوند کو دریا ترس گئے
اب خاک اُڑ رہی ہے گلابوں کے شہر میں
وہ لُو چلی ہے اب کے پتھرّ جھلس گئے
گھر سے خلوص کیا گیا سب کچھ چلا گیا
باتوں میں رس نہیں رہا ہاتھوں کے جُس گئے
عالم میں انتخاب تھے کچھ لوگ شہر میں
کوئی تو کچھ بتائے کہاں جا کے بَس گئے
Add Comment