بشیربدر – مجموعۂ کلام: آسمان
دروازے کی راکھ بھی گھر ہے مٹھی میں یہ گھر رکھنا
دل اک پاکیزہ چادر ہے سر پر یہ چادر رکھنا
جلی ہوئی ٹوٹی دیواریں میرے زخمی کاندھے ہیں
چاندنی رات میں چھپ کر آنا ان پر اپنا سر رکھنا
جس کاغذ پر حال لکھوں گا وہ کاغذ جل جائے گا
تتلی پر تیزاب چھڑکنا پھولوں پر خنجر رکھنا
صندل اور سیندور سے مانگ سدا رہے تاروں کی لڑی
رہے کلائی یونہی کھٹکتی، مالک یہ زیور رکھنا
اس دھرتی سے پیار کیا تھا پیار کیا ہے پیار کروں گا
میں جب جاؤں مرے تن پر مائی کی چادر رکھنا
Add Comment