بشیربدر – مجموعۂ کلام: آہٹ
چراغ لے کے تیرے شہر سے گذرنا ہے
یہ تجربہ بھی ہمیں ایک بار کرنا ہے
میں وہ پہاڑ ہوں جو کٹ رہا ہے پانی میں
یہ دل نہیں ہے مرے آنسوؤں کا جھرنا ہے
مرے عزیز میں اتری ندی میں کیا اتروں
مجھے چڑھے ہوئے دریا کو پار کرنا ہے
بہت جدید ہوں لیکن یہ میرا اثاثہ ہے
اسی قدیم گلی سے مجھے گزرنا ہے
تمہیں خبر نہیں سورج بھی عکس ہے میرا
تمام دن کا مجھے انتظام کرنا ہے
وہ ایک شخص کہ جس کو غزل بھی کہتے ہیں
اسی کے نام سے جینا، اسی پہ مرنا ہے
Add Comment