بشیربدر – مجموعۂ کلام: آہٹ
اب یاد نہیں آتا مجھے کون ہوں کیا ہوں
دنیا کی عنایت ہے کہ سب بھول گیا ہوں
آنکھوں سے نظر آتی ہے مجھ کو تری آہٹ
تو چاہے جہاں ہو میں تجھے دیکھ رہا ہوں
کیوں مجھ سے لرزتے دو عالم کے اندھیرے
میں چاند، نہ سورج، نہ ستارہ نہ دیا ہوں
کشکول کے بدلے میں انہیں تاج ملے ہیں
میں ہاتھ میں اک جام لیے جھوم رہا ہوں
ہم دونوں کے اندر کوئی طوفان چھپا ہے
دریا بھی ہے ٹھہرا ہوا چپ میں بھی کھڑا ہوں
دریا مرے ہونٹوں کو ترستا ہی رہے گا
پانی کے لئے اصغرِ معصوم رہا ہوں
Add Comment