بشیربدر – مجموعۂ کلام: آہٹ
آزاد کر دے اپنا گرفتار میں ہی ہوں
سر پر لٹک رہی ہے جو تلوار میں ہی ہوں
ہندوستان کا سچا وفادار میں ہی ہوں
قبروں سے پوچھ اصل زمیندار میں ہی ہوں
دریا کے ساتھ وہ تو سمندر میں بہہ گیا
مٹی میں مل کے مٹی کا حقدار میں ہی ہوں
اپنی غزل سے کس کا کلیجہ نکال لوں
نغموں کی دھار، شعر کی تلوار میں ہی ہوں
اس بیسویں صدی میں تھے فیضؔ و فراقؔ بھی
اس بیسویں صدی کا اداکار میں ہی ہوں
اپنے سوا کسی سے محبت نہیں مجھے
غالب بہت شریف تھے مکار میں ہی ہوں
کیا واسطہ غزل کو پرانے عروض سے
اندھے مجھے ٹٹول کہ فنکار میں ہی ہوں
وہ عیش کر رہا ہے بہت کافروں کے ساتھ
مولا کی رحمتوں کا طلبگار میں ہی ہوں
اب سو کروڑ لوگ سنبھالیں گے راج پاٹ
اردو غزل کا آخری دربار میں ہی ہوں
اک میرؔ تھا سو آج بھی کاغذ میں قید ہے
ہندی غزل کا دوسرا اوتار میں ہی ہوں
کلمہ پڑھایا پھر اسے ہندی بنا دیا
ملک سخن کا پاک گناہ گار میں ہی ہوں
چولا بدل کے پھر میں ستّا میں آؤں گا
جو گرنے والی ہے وہی سرکار میں ہی ہوں
میں لڑتے لڑتے ٹوٹ گیا اپنے آپ سے
راون کا روپ، رام کا اوتار میں ہی ہوں
میری زمیں نئی ہے، مرا آسماں ہے اور
صبح ادب ہوں، شام کا اخبار میں ہی ہوں
اپنا قصیدہ بھیجوں گا اپنے حضور میں
سورج ہوں اپنی دھوپ کا دربار میں ہی ہوں
Add Comment