کس قدر آگ برستی ہے یہاں
کس قدر آگ برستی ہے یہاں
خلق شبنم کو ترستی ہے یہاں
صرف اندیشہ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں
رُخ کدھر موڑگیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں
زندہ درگورہوئے اہل نظر
کس قدر مردہ پرستی ہے یہاں
زیست وہ جبس گراں ہے کہ فراؔز
موت کے مول بھی سستی ہے یہاں
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment