صراف
ساٹھ کے تیس،نہیں یہ تونہیں ہوسکتا
زر خالص کی انگوٹھی ہے ذرا غور سے دیکھ
کسی پتھر پہ رگڑ اس کو کسوٹی پہ پر کھر
ہر طرح جانچ ہر انداز ہر اک طور سے دیکھ
مجھ پہ روشن ہے کہ اس جنس گرانمایہ کو
میرے افلاس نے کم نرخ بنارکھا ہے
دیکھ کر میری نگا ہوں میں طلب کی شدت
تونے انصاف کو نیلام چڑھا رکھا ہے
جانتا ہوں تیری دوکاں کے یہ زریں زیور
یہ گلوبند یہ کنگن یہ طلائی پیسے
یہ زروسیم کی اینٹوں سے لدی الماری
کسی شداد کا تابوت دھرا ہو جیسے
کتنے مجبوروں نے بڑھتی ہوئی حاجت کےلیے
کیسے حالات میں کس نرخ یہاں بیچ دیے
کتنے ناداروں نے افلاس کے چکراؤئیں
پہلے تورہن کیے بعدازاں بیچ دیے
تیری میزاں کے یہ بے رحم سُنہرے پڑے
ایک جلاد کی تلوار رہے ہیں اب تک
گرسنہ آنکھوں کے کشکول ہوس کے مقتل
ہر نئے خوں کے خریدار رہے ہیں اب تک
ساٹھ کے تیس نہیں تیس کے تیرہ دے دے
اپنی مجبوری کا اظہار نہیں کرسکتا
آج اک تلخ ضرورت ہے مرے پیش نظر
میں کسی رنگ سے انکار نہیں کرسکتا
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment