تنہا تنہا

صراف

Ahmed Faraz
صراف

ساٹھ کے تیس،نہیں یہ تونہیں ہوسکتا
زر خالص کی انگوٹھی ہے ذرا غور سے دیکھ
کسی پتھر پہ رگڑ اس کو کسوٹی پہ پر کھر
ہر طرح جانچ ہر انداز ہر اک طور سے دیکھ

مجھ پہ روشن ہے کہ اس جنس گرانمایہ کو
میرے افلاس نے کم نرخ بنارکھا ہے
دیکھ کر میری نگا ہوں میں طلب کی شدت
تونے انصاف کو نیلام چڑھا رکھا ہے

جانتا ہوں تیری دوکاں کے یہ زریں زیور
یہ گلوبند یہ کنگن یہ طلائی پیسے
یہ زروسیم کی اینٹوں سے لدی الماری
کسی شداد کا تابوت دھرا ہو جیسے

کتنے مجبوروں نے بڑھتی ہوئی حاجت کےلیے
کیسے حالات میں کس نرخ یہاں بیچ دیے
کتنے ناداروں نے افلاس کے چکراؤئیں
پہلے تورہن کیے بعدازاں بیچ دیے

تیری میزاں  کے یہ بے رحم سُنہرے پڑے
ایک جلاد کی تلوار رہے ہیں اب تک
گرسنہ آنکھوں کے کشکول ہوس کے مقتل
ہر نئے خوں کے خریدار رہے ہیں اب تک

ساٹھ کے تیس نہیں تیس کے تیرہ دے دے
اپنی مجبوری کا اظہار نہیں کرسکتا
آج اک تلخ ضرورت ہے مرے پیش نظر
میں کسی رنگ سے انکار نہیں کرسکتا

احمدفراز – تنہا تنہا


urdubazm

 

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW