جانشین
(۱۹۵۲ءمیں کراچی میں طلباء پر فائرنگ سے متاثر ہوکرلکھئی گئ)
علم ودانش کےسوداگروں نےکہا
جاہلو!
تم اندھیروں کے دُنیا کے باسی
جہالت کے تاریک غاروں کے مُردے
کہاں جارہے ہو،کہاں؟
تم تہی دست ہو
تم تہی جیب ہو
تم تہی دامنوں سے ہمیں کوئی لالچ نہیں
تم نہیں جانتے
تم نہیں جانتے
ہم تمھارے لیے
کب سے تہذیب وحکمت کی نایاب اجناس کو
منڈیوں میں سجائے ہوئے ہیں
تم نہیں دیکھتے
تم کہ شب کو رہو
ہم نے دن کے اُجالے میں بھی۔۔بس تمھارے لیے
اس تمدن کے فانوس روشن کیے
جن کی شفاف کرنوں سے سارا جہاں بقعہ نُورہے
عالم طُور ہے
پاگلو!
تم نہیں جانتے
تم نہیں جانتے
ہم ارسطو ہیں شاہوں کے اُستاد ہیں
ہم فلاطوں ہیں ہم کو ہر اک علم وحکمت کے گُریاد ہیں
ہم ہی سقراط ہیں
ہم ہی بقراط ہیں
ہم ہی بے مثل شخصیتوں کے خردمند فرزند ہیں
ہم ہی کون ومکاں کے خداوند ہیں
سرپھرو!
تم کو ہم سے گلہ ہے کہ ہم نے تمھیں
خاک وخوں کے سمندر میں نہلا دیا
صرف اپنے تسلط کی خاطرتمھیں
ہم نے اپنوں کے ہاتھوں سے کٹوادیا
چاند سورج تو اپنے لیے رکھ لیے
اور تم کو کھلونوں سے پہلا دیا
تم کو اس کی مگر کچھ خبر ہی نہیں
یہ تسلط یہ جاہ وحشم یہ زمیں
بس تمھارے لیے ہے تمھارے لیے
دُور فردا کے فرمانروا ہو تمھیں
تم کو ہونا ہے اجداد کا جانشین
پاگلو!۔۔۔ہم سے عالی نظردیدہ ور
تم سے جو بھی کہیں مان لو
تم نہیں جانتےتم کہ مردہ رہے سالہا سال سے
بھیڑیوں اور درندوں کی ارواحِ بدتم میں در آئی ہیں
اورجہل وجون کی نحبس مشعلیں دے کے تم کو
بغاوت پہ اکساتی ہیں
اپنے اجداد سے،اپنے فرمانرواؤں سے،آقاؤں سے
جاہلو!
پاگلو!!
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment