تم زمانہ آشناتم سےزمانہ آشنا
تم زمانہ آشناتم سےزمانہ آشنا
اور ہم اپنے لیے بھی اجنبی نا آشنا
راستے بھر کی رفاقت بھی بہت ہے جانِ من
ورنہ منزل پر پہنچ کر کون کس کا آشنا
اب کے ایسی آندھیاں اُٹھیں کہ سورج بُجھ گئے
ہائے وہ شمعیں کہ جھونکوں سے بھی تھیں نا آشنا
مدتیں گزریں اسی بستی میں لیکن اب تلک
لوگ نا واقف، فضا بیگانہ ہم نا آشنا
ہم بھرے شہروں میں بھی تنہا ہیں جانے کس طرح
لوگ ویرانوں میں کر لیتے ہیں پیدا آشنا
خلق شبنم کے لیے دامن کشا صحراؤں میں
کیا خبر ابرکرم ہے صرف دریا آشنا
اپنی بربادی پہ کتنے خوش تھے ہم لیکن فراز
دوست دشمن کانکل آیا ہے اپنا آشنا
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment