ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہر سبزہ وگل
جہاں گھٹائیں سرِ رہگزار جُھومتی ہیں
جہاں ستارے اُترتے ہیں جگنوؤں کی طرح
جہاں پہاڑوں کو قوسیں فلک کو چُومتی ہیں
تمام رات جہاں چاندنی کی خوشبوئیں
چناروسرو کی پرچھائیوں میں گھومتی ہیں
ابھی تلک ہیں نظرے کےنگارخانے میں
وہ برک کُل سے تراشے ہوئے بہشت سے جسم
وہ بولتے ہوئے افسانے الف لیلیٰ کے
وہ رنگ ونور کے پیکر دہ زندگی کے طلسم
اور ایسی کتنی ہی رعنائیاں کہ جن کےلیے
خیال وفکر کی دنیا میں کوئی نام نہ اسم
ابھی تلک ہیں تصور میں وہ درودیوار
بسیط دامنِ کہسار میں چناروں تلے
جہاں کسی کی جواں زلف بارہا بکھری
جہاں دھڑکتے ہوئے دل محبتوں میں ڈھلے
عجیب تھی وہ جھرو کوں کی نیم تاریکی
جہاں نظر سے نظر جب ملی چراغ جلے
میں لوٹ آیا ہوں اُس شہر سبزہ وگُل سے
مگر حیات اُنھیں ساعتوں پہ مرتی ہے
مجھے یقین ہے گھنےبادلوں کے سائے میں
وہ زلف اب بھی مری یاد میں بکھرتی ہے
چراغ بُجھ بھی چکے ہیں مگر پس چلمن
وہ آنکھ اب بھی مرا انتظار کرتی ہے
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment