کچھ ایسے ہم نے خرابے بسائے شہروں میں
کچھ ایسے ہم نے خرابے بسائے شہروں میں
جو دشت والے تھے وہ بھی اُٹھ آئے شہروں میں
ہماری سادہ دلی دیکھیے کہ ڈھونڈتے ہیں
ہم اپنے دیس کی باتیں پرائے شہروں میں
کچھ اس طرح سے ہر اک بام ودرکو دیکھتے ہیں
زمانے بعد کوئی جیسے آئے شہروں میں
سُنا ہے جب بھی لُٹی ہے بہارِ ویرانہ
تو چند درچمن مسکرائے شہروں میں
قدم قدم پہ ہُوے تلخ تجربے پھر بھی
ہمیں حیات کے غم کھینچ لائے شہروں میں
ہوا نہ دو کہ یہ جنگل کی آگ ہے یارو
عجب نہیں ہے اگر پھیل جائے شہروں میں
فراز ہم وہ غزالانِ دشت وصحرا ہیں
اسیر کرکےک جنھیں لوگ لائے شہروں میں
احمدفراز – تنہا تنہا
Add Comment