ایک قطعہ
ہم اہلِ درد طرب کی محفلیں سجاویں گے کیا؟
دھواں ہوئے جاتے ہیں راستے منزل پاویں گے کیا؟
کچھ تو بچا رکھو ناکامئِ محبت کی داستاں
گر وہ پوچھ ہی بیٹھیں کہ سناؤ تو سناویں گے کیا؟
ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!
Add Comment