Masjid Aqsa Under Attack
چند ماہ قبل ایک خبرکھلی کہ سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر سمیت کویت نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اپنے ممالک کو اسرائیلیوں کے لیے کھول دیا ہے ۔ اب یہودی کھل کر ان ممالک کے ساتھ روابط قائم رکھ سکتے ہیں اور کاروبار بھی کر سکتے ہیں۔
ستائیسویں رمضان المبار ک کو اسرائیلی فوجوں نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا اور نہتے فسلطینیوں کو اس وقت جب وہ عبادت میں مصروف تھے ان پر یلغار بول دی۔ خو د یہ ایکٹ روم ایکٹ کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی جس کے تحت کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں پر حملے جنگ کے مترادف سمجھا جائے گا۔
اگر اس قسم کا کوئی عمل کسی مسلم فوج کی جانب سے ہوا ہوتا تو دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ترجمان کب کا دنیا بھر کی قوتوں کو اس ملک پر دھشتگردی کا فتویٰ لگوا چکے ہوتے مگر چونکہ اسرائیل پر دنیا کی بڑی طاقتوں کا ہاتھ ہے لہذا کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی! یہ بذاتِ خود کسی دھشتگردی سے کم نہیں!
مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ جہاں کفار سے کسی قسم کی امید رکھنا پاگل پن ہے ادھر شاید ہی کسی مسلم ملک کی جانب سے سرکاری سطح پر آواز اٹھائی گئی ہو! اگر اٹھائی گئی ہے تو وہ شاید ایسی کہ نا ہونے کے برابر!
درحقیقت مسلم امہ شدید منافقت کا شکار ہے! اور اسی منافقت کی وجہ سے امہ زبردست تذلزل کا شکار ہے۔ ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان آج بھی سمندر پر جھاگ کی مانند ہیں جن کی کوئی اہمیت نہیں! لہذا کفار جو چاہتے ہیں جب چاہتے امتِ مسلمہ کو زک پہنچانے کے لیے کرتے رہتے ہیں۔ کشمیر میں ہندو مظالم عروج پر پہنچ گئے مگر کسی کو فکر نہ ہوئی، کاشغر میں مسلمانوں کو جبراً غیراسلامی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا اہل اسلام خاموش رہے، میانمار میں مسلمانوں پر جبروستم کے پہاڑ توڑے گئے اہلِ اسلام کے اختیار میں کچھ نہ تھا۔
اب ان مظالم کی انتہامسجدِ اقصیٰ پر حملے اور نہتے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے پر پہنچ چکی ہے مگر امتِ مسلمہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
کفار جانتے ہیں کہ امتِ مسلمہ کسی بھی طور پر ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہی! کیونکہ یہ وہ امت ہے جو خود اپنے اندر اسقدر شدید اختلافات رکھتی ہے کہ انکو ایک چنگاڑی کی ضرورت ہے یہ لوگ آپس میں لڑمریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی وہ توھینِ رسالت پر شرارت کرتے ہیں اور کبھی براہِ راست سو سو ممالک کی فوج لیکر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور مسلمان اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
اور خاموش تماشائی بنیں بھی کیوں نہ؟ اہلِ اسلام کے پاس عیاشیوں اور فضولیات پر پیسہ برباد کرنے کے اور کچھ ہنر ہے بھی نہیں۔ عربوں کے پاس اسقدر بے تحاشہ دولت ہے کہ انہیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ کہاں صرف کی جائے، لہذا وہ یورپ کے شدید فضول اور لغو فٹبال کلبوں کو خرید کر راتوں رات دنیا کے امیر ترین کلب بنا کر سستے اور ایورج کلاس فٹبالرز کو خرید کر کڑوڑں کی تنخواہیں دیکر تماشے دیکھنے سے فرصت نہیں!
او آئی سی کو تو میں اسلامی تحفظات کی توھین کا بدترین ادارہ سمجھتا ہوں مگر کچھ عرصہ پہلے انتالیس اسلامی ممالک کی ایک فوج تیار کی گئی جسکی قیادت پاکستان کے سابقہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو سونپی گئی مگر اس فوج نے اب تک کیا کام کیا ہے؟ کچھ نہیں! اسکا مقصد کیا ہے؟ کسی کو علم نہیں! شاید اسکا مقصد یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ عرب ایران جنگ ہو تو یہ فوج عرب کے تٖحفظ کے لیے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑے!
اسرائیل اس خطے کا سب سے محفوظ ترین ملک ہے کیونکہ کسی بھی اسلامی ملک میں ایسی کوئی جرأت نہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف کاروائی کر سکے۔ کیونکہ اسرائیل کی پشت پر تمام کی تمام مغربی طاقتیں ہیں۔ اور چونکہ ہمارے ان ممالک کے معاشی اور سیاسی تعلقات ہیں جوکہ ہم خراب نہیں کرنا چاہتے لہذا ہمیں مسلمانوں کا خون قبول ہے!
ادھرعید کے دوسرے دن ہی کابل میں ایک مسجد میں دھماکہ ہوا جس میں اٹھارہ بیس سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بن گئے – اب مجھے کوئی بتائے کہ مسلمانوں پر رحم کوئی کھائے تو کیوں کھائے؟ ہمارے اپنے ہی ملک میں عاشقان چند ہفتے پہلے دھشتگردی کی جو انتہا کی اس پر ہم پر کوئی رحم کھائے تو کیوں کھائے؟
درحقیقت اہلِ اسلام کے کسی بھی ملک میں ایسی قیادت موجود نہیں جو جس میں کوئی دم خم ہو۔ اگر کہیں کچھ نظر آتا ہے تو انکے اپنے ان کے خلاف زبردست محاظ آرائی میں مصروف ہیں انکی جڑیں کھوکھلی کرنے کے درپہ ہیں۔ اتفاق نام کی کوئی شے مسلمانوں میں موجود ہی نہیں! ہر کسی کے اپنے اپنے مقاصد اور اپنے اپنے مفادات ہیں!
دنیا بھرمیں عام انسانوں میں اس بات کا دکھ درد ہے کہ اسرائیلی دھشتگردیاں حد سے بڑھ چکی ہیں اور دنیابھر میں اسکے خلاف مظاہرے بھی ہو رہے ہیں جن میں کٹر یہودی تک شامل ہیں لیکن اگر کسی کو غیرت کھانے کی ضرورت ہے تو وہ مسلم امہ کے سربراہان کو ہے جو اس وقت بیغیرتی کی بدترین نیند سورہے ہیں۔ اس وقت شاید عمران خان اور رجب اردگارن کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جومسلمانوں کے غم میں آواز اٹھا رہا ہے!
میں ہمیشہ سے یہ بات کہتا چلا آ رہا ہوں کہ اگر مسلمانوں کے چند ایک اہم ممالک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اپنے اندرکے تمام تر اختلافات بھلا کر ایک اللہ اور رسول کے لیے جہاد کریں تو مغرب کی جرأت نہیں کہ اسلام کو زک پہنچا سکے۔ ان ممالک میں واحد ایٹمی طاقت پاکستان کو کلیدی رول ادا کرنا چاہیے۔ مگر پاکستان کے اکثر لیڈر اور افواج کے سپہ سالارز منافق ہیں! وہ یہ رول ادا کرنے میں گھبراتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ملک کی معیشت کا سب سے بڑا حصہ سعودیہ سے آتا ہے اور سعودیہ امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا خنزیر ہے!
درحقیقت سعودیہ کی تشکیل ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ مغرب کے لیے ایک بفراسٹیٹ کا رول ادا کرے اور اپنی امارت پر دوسرے مسلم ممالک کے ضمیروں کو مجروح رکھے۔ ورنہ ایک پاکستان، ایران، سعودیہ، مصر، شام، ترکی کا اتحاد تمامتر یورپ اور مغربی دنیا پر بھاری ہے۔ یہ ممالک اپنے پروں کے سائے تلے دوسرے اسلامی ممالک کو لے لیں تو یہ ایک زبردست عالمی پاوور کے طورپر ابھر سکتا ہے۔ مغرب کو یہی ایک خوف ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو مغرب تباہ ہوجائے گا۔ مغرب کی ایک شیطانی پر یہ اتحاد کل مسلم امہ سے مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ کردے تو انکی معاشی تباہی واقع ہو جائے۔
برطانیہ اور اسکے اتحادیوں نے مسلم امہ کے لیے دو بہت بڑے مسائل کھڑے کیے ہیں: ایک فسلطین میں یہودی ریاست کے قیام اور دوسرا کشمیر کی غلط تقسیم! آج یہی وہ اہم ترین مسائل ہیں جن پر کفاراپنی استبدادی دھشتگردیاں کر رہا ہے اور مغرب انہیں سپورٹ کررہا ہے۔ یہی دو اہم خطے ہیں یہاں پر مغربی اسلحہ بہت بڑی تعداد میں فروخت ہوتا ہے! کشمیر کے برفانی علاقوں کی وردیوں کی قیمت کئی ممالک کے بجٹ سے زیادہ ہیں، بھلا مغرب کیوں چاہے گا کہ یہ مسائل حل ہوں۔کسی بھی قسم کا مسلم اتحاک یہ مسائل دنوں میں حل کراسکتا ہے مگر!
یہی وجہ ہے کہ مغرب ایسا کوئی بھی اتحاد پیدا ہونے نہیں دے گا۔ اس لیے وہ عربوں کے ضمیروں کو مجروح رکھے گا۔ عربوں کیساتھ ساتھ پاکستانی ضمیر خودبخود مجروح ہوجائے گاکیونکہ پاکستانی لیڈران سعودیہ کے خلاف کوئی عمل کرہی نہیں سکتے۔ انتالیس ممالک کے فوج اسی لیے ناکارہ اور غیرفعال ہے کہ انکو تنخواہیں عربوں سے ملتی ہیں۔ اور عربون نے اسرائیلیوں کے لیے حال ہی میں اپنی سرحدیں کھول دی ہیں۔ عنقریب جس مکاری سے یہودی فسلطین میں داخل ہوا اور پھر وہاں سے دھشتگردی سے سارے فلسطین پر قابض ہوگیا اسی طرح عنقریب عرب کا یہی حال ہو گا۔
اورگریٹراسرائیل کا جو خواب یہودی دیکھ رہے تھے وہ پوراہونے میں کوئی طاقت انکے راستے میں حائل نہیں ہوگی! جبکہ مسلمانوں کا مستقبل ایک مضبوط اتفاق سے وابستہ ہے جس میں تمامتر اختلافات بھول کر ایک اللہ ایک رسول اور ایک قرآن کے لیے مسلمانوں کی حفاظت ہو! ورنہ حالات پچیدہ ترہوتے جائیں گے!
بقلم: مسعود
Add Comment