عاشقانِ رسول عاشقانِ رسول عاشقانِ رسول عاشقانِ رسول عاشقانِ رسول عاشقانِ رسول عاشقانِ رسول عاشقانِ رسول عاشقانِ رسول عاشقانِ رسول
میں اپنے اس بلاگ کا آغاز بابائے قوم حضرت قائدِ اعظم کے ایک قول سے کررہا ہوں:
اس خطاب میں حضرت قانون ساز اسمبلی سے اور اسکے ساتھ کل پاکستان کی عوام سے مخاطب تھے کہ تم چاہے کسی بھی رنگ و نسل، دین و مذہب، سوچ و فکر، معاشرتی حسب و نسب سے وابستہ ہو، تم ایک مکمل طور پر آزاد پاکستانی ہو اور پاکستان کی سرحدوں میں تمہیں تمہارے دین و مذہب وفکر وسوچ کی پرستش کرنے کی مکمل آزادی ہے! اسکی تفسیر میں مزید یہ بیان کیا جاسکتا ہےکہ تم چاہے کسی بھی دین سے تعلق رکھتے ہو تمہارے عبادات تمہارا حق ہے اور کسی مسلم کو کسی غیرمسلم کو حراساں کرنے کا حق حاصل نہیں۔
ان میں کوئی بھی بات ایسی نہیں جسکا ریاستِ پاکستان سے کوئی تعلق ہے! ریاست ان تمام تر باتوں سے الگ ایک ادارہ ہے جسکی خدمت کرنا ہر ایک پاکستان پر فرض ہے اور انکا حق ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ کوئی کافر ہے کہ مسلمان، مومن ہے کہ منافق ہر ایک فرد جو پاکستان کی سرحدوں میں پیدا ہوا ہے اور پاکستانی شہریت رکھتا ہے اسکو حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی عہدے پر ملک کے لیے فرائض سرانجام دے سکتا ہے!
پچھلے چند دنوں سے پاکستان کی ریاست کو ایک خاص سوچ رکھنے والے طبقے نے تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ طبقہ ان لوگوں کا جو خود کو عاشقانِ رسول ﷺ کہتے ہیں ۔ انکے نذدیک ہر وہ شخص جو نبی پاک ﷺ کی شانِ اقدس میں کسی بھی طرح سے گستاخی کرے اسکا قتل کرنا واجب ہے! چاہے اسپر اس گستاخی کا ثبوت ثابت ہو یا نہ ہو! جب ایک مسلمان نے گواہی دیدی کہ فلاں گستاخِ رسول ﷺ ہے اسکو قتل کردو!
اسکی چندایک مثالوں میں سلمان تاثیر کا قتل اور ایک نوجوان بلاگر مشعال کا وحشیانہ قتل کی صورت میں موجود ہے۔
موجودہ فسادات کی وجہ کچھ مدت پہلے فرانس کے صدر کے الفاظ تھے جن پر نام نہاد اور اب کالعدم تحریک تحریکِ لبیک یارسول ﷺ کا پاکستانی مسلمانوں کو اکسانا ہے کہ فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں۔ اس ضمن میں ملک کے کچھ شہروں اور خاص کر لاہور میں بدترین دھشتگردی کی گئی۔سرکاری امارات کوبدترین نقصان پہنچایا گیا اور توڑ پھوڑ اور فتنہ و فساد کے انتہا کی گئی! یہاں تک کہ فسادیوں اور بلوئیوں نے عام شہریوں کو قتل تک کرنے سے دریغ نہ کیا! سفاکی کی بدترین مثال!
فسادات کی جو ویڈیومنظرِ عام پر آئی ان کو دیکھیں تو صاف ظاہرہوتا ہے کہ یہ سب فساد کسی سوچی سمجھی تنظیم سازی یعنی ایجنڈا کے تحت کیے گئے ہیں۔ فسادیوں میں یقیناً نوے فیصد لوگ ایسے معلوم ہورہے تھے جنہوں نے شاید کبھی اپنی قریب کی مسجد میں پانچ وقت کی نماز بھی پابندی سے ادا نہیں کی ہو گی! فسادات کے دوران پاکستان کی دونوں سیاسی جماعتوں یعنی پی پی پی اور نون گینگ نے مسلسل سوشل میڈیا پر اس آگ پرتیل ڈالا، حالات کو مزید ابترکرنے میں مدد دی اور انکے ساتھ کئی لاکھ ٹویٹس ہندوستان سے پکڑے گئے۔
یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ نون گینگ اور پی پی پی کی سیاست کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ ہے! اور ایکباراس سازش کے پیچھے اپنی سیاسی اور دینی جماعتوں کیساتھ ساتھ ہندوستانی ادارے ملوث نکلے!
عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی اہم اور خوبصورت انداز میں اس قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ توہینِ رسالت سے کسطرح نبردآزما ہونا ہوگا ۔ اس کے لیے اپنے ہی ملک کی املاک کو نقصان پہنچا کر ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کہ ہم عاشقانِ رسول ہیں؟
عمران خان کی باتوں کی طرف بعد میں آتے ہیں پہلے ذرا ان عاشقانِ رسول ﷺ کا کچھ احاطہ کرتے ہیں۔
ضیاالحق نے پاکستان کی عوام پر ناقابل معافی جرم کیا ہے! ایک ایسا جرم جس پر اسکو ہزاربار پھانسی دینا کم ہے! ضیاالحق کے پاس بھٹو کی حکومت کا ناجائز طور پر تختہ الٹنے کے بعد ہر وہ طاقت و قوت تھی جس سے وہ اس ملک کو دینی اور دنیوی طور پر سیدھے اور مستحکم راستے پر ڈال سکتا تھا۔ اس کے پلیٹ فارم پر ہرمکتبۂ فکر کے علمأ حضرات جمع تھے۔ وہ چاہتا تو ان سے اس ملک میں ایک ایسا نظامِ مصطفیٰ رائج کروا سکتا جو ہماری قوم کے دینی تشخص کو ایک جگہ جمع کردیتا۔
مگر ضیاالحق نے نظامِ مصطفیٰ کا نعرہ لگا کر اس کے ساتھ ایک گھنوؤنا مذاق کیا کہ دین تو کیا مذہب بھی باقی نہ رھا! اس کو مزید شدت کی حد تک نقصان اس وقت پہنچایا جب توہینِ رسالت کا ایک ایسا قانون پاس کروا دیا جس نے مستقبل میں عوام میں دھشتگردی، فتنہ و فساد اور انتہاپسندی کی راہیں کھول دیں!
توھینِ رسالت کا جو قانون انتہائی غیرسنجیدگی اور عجلت میں چند گھنٹوں میں پاس کروایا گیا اس کی تحقیق میں جتنے بھی حوالے دئیے گئے سب کے سب کمزور اور ضعیف یا سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔پچھلی ایک دہائی میں اسی قانون کو بنیاد بناکر دھشتگردی، فسادات، نفرت، بیجا قتل و غارت کی ایک ایسی لہر چل پڑی جسکی انتہا اب پچھلے چند ایک سالوں میں تحریکِ لبیک یارسول ﷺ کی صورت میں مولوی خادم حسین رضوی کی سرپرستی میں وجودپذیر ہوئی!
مولوی جس کا دین اسلام میں یا اسلام کی خدمت کے لیے ایک بھی ایسا عمل دفترمیں موجود نہیں جسے لیکر کوئی اہل عقل انکو مانے! کوئی ایسا عالمی سطح پر بحث مباحثہ جس میں مولوی خادم نے شرکت کی ہو، یا کسی بھی عالمی سطح کے اسلامی اجلاس میں جس میں اس مولوی کو مدعو کیا گیا ہو موجود نہیں! اسکے برعکس اس کی اکثرپبلک ٹالک میں گالی گلوچ، بدزبانی، بدکلامی اور جذبات کو ابھارتی ہوئی باتوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ مزید جو جہاں کی بدعات ، موشگافیاں، خالی باتیں اور قصے کہانیاں اس مولوی سے وابستہ ہیں!
اسکے پاس فقط ‘امریکہ مردہ باد، فرانس مردہ باد، ختمِ نبوت زندہ باد’ کے سوا کچھ نہیں اور یہی وہ کلمات ہیں جن پر پاکستان کی دین کے معاملے میں کندذہن قوم لبیک کہتی ہے! یاد رہے کہ دنیا کے ستاون اسلامی ممالک کی اکثریت میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جو پاکستان میں قائم ہو چکی ہے اور اسکی سب سے بڑی وجہ ضیاالحق کا وہ قانون ہے جو اسکی بنیاد ہے!
دردِ دل رکھنے والے پاکستانی کے لیے یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ ایک ایسا مولوی جسکے پاس دین اور دنیا کی نسبت کوئی بھی ایسا عمل دفتر میں نہیں جس پر اسکی باتوں کو جائز کہا جائے ، اس قوم نے اسے ایک قوت بنا دیا ہے! ایک انتہائی جاہلانہ قوت! ایسی قوت جو مستقبل میں اس وطن کی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے!
تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس وقت وطنِ عزیز میں دنیاوی پستی کیساتھ ساتھ دینی غفلت بھی عروج پر ہے۔ وہ علمأ جو دین کی روح کو جانتے ہیں وہ یاتو ملک چھوڑ چکے ہیں یا پھر پسِ پردہ چلے گئے ہیں۔ وہ اپنے اندر اس قسم کی کوئی بھی جرأت محسوس نہیں کرتے کہ آگے بڑھ کر اس قوم کو سمجھائیں کہ کفار کی پھینکی ہوئی چنگاری پر اپنے گھر کو جلانے والے جاھل ہوتے ہیں عاشقانِ رسول ﷺ نہیں! مگر ان علمأ کو اپنی جانیں عزیز ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے کچھ بولا تو نام نہاد ملا و مفتی و مولوی انکو مرتد کافر اور واجبِ قتل تک کے فتوؤں سے نوازدیں گے۔
یہی وہ نام نہاد ملاومفتی و مولوی ہیں جنہوں نے اس قوم کو مذہب کے نام پر شدید ٹارچر کیا ہوا ہے۔ اس قوم کا برین واش کر کے انہیں مذہبی جہالت کی جانب دھکیل دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے سچ کی تلاش منقطع کر دی گئی ہے اور ہر بات کو دین سمجھ کر جائز بنا دیا گیا ہے۔ کوئی بھی فرقہ کچھ بھی کرے سب درست ہے کو دین بنا دیا گیا ہے۔ اصلاح نام کی کوئی شے باقی نہیں رہی۔ اگر کوئی بدعات کو واضح کرے وہ وہابی ہے! لہذا جو کچھ کرتا ہے اسے کرنے دیا جائے۔
اپنی سیاسی اور دینی مقاصد حاصل کرنے کے لیے فقط ایک بات پر اتفاق ہے: توھینِ رسالت پر آگ بگولہ ہو جاؤ، ملک کے نظام کو تہس نہس کر دو، فسادات کرو، فتنے پھیلاؤ اور خود کو عاشقانِ رسول ﷺ ثابت کرو!
یہی وہ قوت ہے جس مظاہرہ بارہ اپریل سے اب تک ہورہا ہے! دھشتگردی، فتنہ ، فساد اورقتل و غارت کی انتہا!
سول یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم عاشقانِ رسول ﷺ کہلائے جانے کے قابل ہیں بھی؟
سب سے پہلے تو لغوی اعتبار سے عاشق ہونے کا مفہوم سمجھ لیں۔ عاشق اسکے کو کہتے ہیں جو کسی کے عشق میں مبتلا ہو! عشق محبت کی آخری حد ہے جس کا انجام جنون کے سوا کچھ نہیں۔ جنون پاگل پن اور دیوانگی کی ابتدا ہے۔ اگر تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم جنونی ہو گئے ہیں تو توڑ پھوڑ کی سمجھ آتی ہے۔ پھر انہیں یہ بھی کہنا چاہیے کہ نبی پاک ﷺ ہمارے معشوق ہیں – نعوذباللہ! کیونکہ عشق وہی ہوتا ہے جہاں کوئی معشوق ہو تو پھر آپ ﷺ کو معشوق کہنے میں کیا قباحت ہے؟ ہے! کیونکہ ایسا کہنا ایک عظیم الشان ہستی کی توھین ہے تو غیرشعوری طور پر پہلی توھینِ رسالت تو یہی سے ہوتی ہے کہ خود کو نبی پاک ﷺ کا عاشق کہا جائے!
اب یہاں سے انکی تاویلیں شروع ہوتی ہیں۔ کہ نہیں جی ہم نیک نیتی اور تعظیم دینے کی نیت سے خود کو انکے عاشقانِ رسول کہتے ہیں۔ چلیں! اب یہاں اس کا بھی مظاہرہ ہو جائے۔ نبی پاک ﷺ کی ذاتِ اقدس تمام کائنات کے ہر فرد کی ذات سے مقدس اور معتبر تر ہے ۔ کیوں؟ فقط اس لیے کہ وہ رسولِ خدا ہیں؟ فقط اس لیے کہ وہ شہ لولاک ہیں؟ فقط اس لیے کہ وہ محبوبِ خالقِ کائنات ہیں؟ ہرگز یہی وجوہات نہٰیں! بلکہ آپ ﷺ وہ عظیم ہستی ہیں جس نے اس انسانیت کو انسان ہونے کا شرف بخشا۔ آپ ﷺ نے انسان کی وہ تعلیم و تربیت کی جس سے انسان کی تکمیل مکمل ہوئی۔ آپ ﷺ اپنی ذات پر بدترین ظلم و ستم برداشت کیے مگر کبھی اپنی ذات کے لیے کسی کو سزا کسی کے قتل کا حکم نہیں دیا۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا بلکہ آپ ﷺ کے چہرۂ اقدس ہمیشہ انسانوں کے لیے محبت اور وفا سے سرشاررہا۔
آپ ﷺ نے کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولا، کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا، کسی کے لیے برے الفاظ نہیں کہے، کسی کا برا نہیں چاہا، کبھی کسی قسم کا دھوکہ نہیں کیا، اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو استعمال نہیں کیا، لین دین میں، دنیا داری میں ، دین داری میں کوئی غلط بیانی نہیں کی۔کسی کی حق تلفی نہیں کی، ایفائے عہد نبھائے، ناحق مال نہیں کھایا، ناحق بات نہیں کی، کوئی فحش گوئی مذاق میں بھی آپ سے وابستہ نہیں….. الغرض کوئی غیر اخلاقی فعل آپ ﷺ کی ذات سے وابستہ نہیں بلکہ آپ ﷺ سراپا رحمت ہی رحمت ہیں…..
اب خود کو عاشقانِ رسول کہنے والے اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔ آپ کے اندر کتنی باتیں ایسی ہیں جو آپ کو اس عظیم ہستی کا عاشق تو دور کی بات اسکا امتی ہونے پر حق بجانب کہیں؟؟ ہمارے ملک میں کوئی دھندہ اس وقت چلتا ہی نہیں جب تک اس میں فراڈ نہ ہو، ماتھوں پر محراب ڈالے ہوئے ہیں اور تجارتوں میں غبن ہیں، ترازو سے تولنے میں ڈنڈیاں مارنا ہمارے الٹے ہاتھ کا کھیل ہے، مکروفریب، دھوکہ دہی ، جھوٹ، کبرئیائی، غیبتیں کرنا، دوسروں کو نقصان پہنچانا ہمارے لیے کوئی معیوب نہیں۔
ہمارا عدالتی نظام انسانی تاریخ کا سب سے منافق ترین نظام ہے! عدالتوں کے سائیوں قرآنوں پر ہاتھ رکھکر ضمیربیچ کر جھوٹی گواہیاں دینا ہمار پیشہ ہے! سرعام انسان کو لوٹنا ہمیں کوئی برا لگتا ہی نہیں۔ مدرسوں کے سائیوں میں بچوں کیساتھ زنا معمول بن چکا ہے۔
الغرض کوئی ایک ایسی بات بتا دیجیے جو ہماری قوم کو عاشقانِ رسول ہونے پر حق بجانب کہے؟ فقط الفاظ سے کہنا کافی نہیں۔ مگر افسوس کہ تحریبکاروں کی اکثریت انہی لفظی عاشقوں کی ہے جن کے اعمال اسکے حق بجانب نہیں!
رہی بات یہ کہ اگر کوئی توھینِ رسالت ﷺ کرتا ہے تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ اسکے لیے عمران خان کے الفاظ سونے سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اس اندھیرے میں اس ملک میں اس جیسا عاقل اور بالغ انسان اس ملک کے حکومت کا نگران بنا رکھا ہے! اسکے الفاظ میں بہت ہی عمدگی سے سمجھ سکتا ہوں کہ میری تربیت یورپ میں ہوئی ہے۔ یورپ کو اس بات سے رتی برابر فرق نہیں پڑتا کہ تم اپنی کندذہنی میں انکے سفیروں کو واپس بھیج دو – جواب میں وہ تمہارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جس کا سب سے بڑا نقصان تمہیں ہوگا۔
عمران خان کی طرح یہ بات میں ایک مدت پہلے لکھ چکا ہوں کہ جب تک تمام مسلم ممالک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک زبان ہو کر ایک جیسا عمل نہ کریں گے اسوقت تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آئیگا! میں اکثر ڈنمارک کے باشندوں سے بحث کیدوران کہتا کہ جس دن تمام کے تمام مسلم ممالک ملکر مغرب سےسفارتی ، تجارتی، معاشرتی اور معاشی تعلق توڑلیں گے اس دن مغرب کی آدھی معیشت تباہ ہو جائے گی! مگر اسکے لیے وہ اتفاق اور اتحاد قائم کرنے کی ضرورت ہے جس میں ایسا عمل کیا جا سکے۔ اپنے ملک کے املاک کو نقصان پہنچا کر تمہیں کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ سوائے اسکے کہ ہندوستانی ایجنڈے پر ہماری کچھ سیاسی اور دینی جماعتوں کے مقاصد پورے ہونے کے!!! دشمنانِ پاکستان جانتے ہیں کہ اس قوم کو کمزور کرنے کے لیے ایسا ایک شوشا چھوڑنا لازمی ہے پھر تیل دیکھو اور تیل کی دھار! جاھل کون؟
عمران خان جب بات کرتا ہے تو دنیا سنتی ہے! یہ خوبی اسکے سوا بھی کن ٹٹے اور کرپٹ پاکستانی لیڈر میں نہیں! اور کسی بھی دینی جماعت کے لیڈر میں ایسی قابلیت ہے ہی نہیں کہ وہ کسی عالمی پلیٹ فارم پر بات کر سکے! لہذا اسکا ساتھ دیجیے!
مگر عمران خان کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ وہ ایک انتہائی کمزور ترین حکومت کا ایک بہت مضبوط لیڈر ہے جس کے سامنے ایک ایسی اپوزیشن ہے جو جاھلیت، کندذہنی، مفادپرستی، کرپشن، لٹیراپن اور سیاسی فہم کی عدم موجودگی کی بدترین مثال ہے! ساتھ ہی اسکے سامنے ایسی دینی جماعتیں ہیں جو مفادپرستی میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ انکے لیڈران کے قول و فعل میں بدترین تضاد پایا جاتا ہے۔ اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں یا تو کسی کی سیاسی شہ پر کرتے ہیں یا موجودہ فسادات پھیلانے کی خاطر! ساتھ ہی اس کی پہلے ہی سے کمزور حکومت میں ایسے عناصر موجود ہیں جو اسکے رگوں میں اندھیرا کا کام کررہے ہیں۔
عمران خان پاکستان کو قائدِ اعظم کے الفاظ کے مطابق ڈھالنے کی تگ و دو میں ہے جبکہ اسکے لیے حالات دن بدن خراب کیے جارہے ہیں۔ یہ قوم سیاسی اور دینی سطح پر اسقدر کندذہنی کا شکار ہوچکی ہے کہ اسکو یہ کوشش نظر نہیں آتی اور انکے ساتھ چلتی ہے جو فتنے اور فساد ی ہیں!
بقلم : مسعود
Add Comment