Saqoot-e-Dhaka
بنگال
برٹش انڈیا کے پسماندہ ترین علاقوں میں سے ایک علاقہ بنگال کا تھا۔! اور اس میں بھی خاص کر مشرقی بنگال پسماندگی کی اتنہا تک پہنچ چکا تھا۔! یہاں تک کہ ڈھاکہ کے گردو نواح میں کوئی خاطر خواہ کارخانہ تک موجود نہیں تھا۔! علم سے شدید دوری تھی۔ اور جو کچھ ترقیاتی منصوبہ بندی تھی وہ کلکتہ کے گرد و نواح تک ھی محدود تھی۔ Saqoot-e-Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part I
1905 میں انگریزراج نے بنگال کو دو حصوں، مشرقی اور مغربی بنگال میں تقسیم کر دیا! تو مشرقی بنگال میں ترقی ہونا شروع ہوئی۔! بدقسمتی سے یہ ترقی مغربی بنگال کے ہندوراج کو پسند نہ آئی! اور انکی سفارش پر مشرق اور مغربی بنگال کو1911 میں پھر سے ایک بنگال میں ضم کر دیا۔
ڈھاکہ ہی میں 1906 میں مسلم لیگ کا قیام ہوا۔! مگر بدقسمتی سے مسلم لیگ ایک رؤسأ کی پارٹی ہونے کے سوا کچھ نہ تھی۔! نہ اسکا کوئی ٹھوس منشور تھا نہ کوئی خاص قابلِ ذکر عزم! یہ درحقیقت ان رؤسأ کی تنظیم تھی جنہیں یکایک یہ فکر لاحق ہو گئی کہ جب اور اگر انگریز ہندوستان سے جائیں! تو کہیں ان رؤسأ کے حقوق ضبط نہ ہو جائیں۔
مسلم لیگ
قائدِ اعظم محمد علی جناح نے بھی اس پارٹی میں 1913 تک شمولیت اختیار نہ کی! اور آپ نے 1930 کے ابتدائی سالوں تک یہ کوشش کرتے رہے! کہ کہ ہندومسلم اتحاد قائم کیا جا سکے تاکہ جب اور اگر انگریز اس ملک سے جائیں تو ہندواورمسلم ایک پرچم تلے ایک ملک میں ایک ساتھ رہ سکیں۔ Saqoot-e-Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part I
مگر ہندوؤں کے بگڑے ہوئے تیور،! انکی مستبقل ہندو عسکریت کی سوچ اور ہٹ دھرمی! اور مسلمانوں کی سیاسی حالت کو دیکھتے ہوئے! آپؒ ناامید ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برطانیہ چلے گئے! اور وہیں کوٹھی خرید کر لاء کی پریکٹس شروع کر دی۔! آپؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہندو ناقابلِ اصلاح ہے!، یہ اپنی ہٹ دھرمی سے نہیں نکلتے اور مسلمانوں کا حال یہ ہے!کہ جو بات ان سے رات میں کی جائے!وہ صبح جا کر کمیشنر یا ڈپٹی کمیشنر کو بتا دیتے ہیں۔
علامہ محمد اقبال نے 1930 میں جلسۂ الہ آباد میں اپنا دوقومیت کا نظریہ پیش کیا۔! مگر اسکی تکمیل کے لیے آپؒ کو ایک لیڈر کی ضرورت تھی۔! بدقسمتی سے اقبالؒ بذاتِ خود کبھی ایک لیڈر کی حیثیت سے سامنے نہ آئے! اور نہ ہی لیڈر بن کر کسی جماعت کی سربراہی کی۔
آپؒ مسلم لیگ کے کارکن کی حیثیت سے اپنا نقطۂ نظر تو پیش کر سکتے تھے! مگر اسکو باحیثیت لیڈر عملی جامہ نہیں پہنا سکتے تھے۔ اسکے لیے آپؒ کی نظر محمد علی جناح پر تھی۔! آپؒ جانتے تھے کہ ہندوستان میں اگر کوئی مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے اس منزل جانب لے جاسکتا ہے تو وہ مسٹر جناح تھے۔
آپؒ نے مسٹرجناح سے برطانیہ میں ملاقات کی اور انکے اندر امتِ مسلمہ کے احیأ کا بیج بویا۔! اقبال کی باتیں جناح کے دل میں گھر کر گئیں اور جناح نے واپس ہندوستان آ گر اس سوچ پر کام شروع کر دیا۔
مولانامودودیؒ
جیسا کہ اوپر مذکور ہے کہ اقبال کبھی ایک لیڈر کی حیثیت سے سامنے نہیں آ سکے! اسکی ایک اور مثال یہ تھی جب اقبال نے یہ محسوس کیا!کہ مسلم لیگ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے حصول کی جدوجہد تو کر سکتی ہے! مگر وہ اسلامی ریاست قائم نہیں کر سکتی جسکی سوچ اقبال کی فکر میں تھی۔ Saqoot-e-Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part I
اسکے لیے اقبال کو کسی اور آدمی کے ضرورت تھی۔ اس تلاش میں انکی نظر مولانا مودودی پرمرکوز ہو گئی۔
آپؒ نے مولانا مودودی کو دکن سے بلایا! اور ایک ایسی پارٹی کی تشکیل کی سوچ دی جو خلفائے راشدین کی خلافت کو اساس بنا! کر جدید تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایک ایسی ریاست قائم کرے! جس میں مسلمان اس خلافت کے تحت زندگی گزار سکیں اور اس خلافت جس پر ملوکیت کی چھاپ لگ چکی تھی، اسکو دھو سکیں۔
بدقسمتی سے یہ سوچ ابتدائی طفلانی دور ہی میں تھی کہ شاعرِمشرق حضرت علامہ محمد اقبال خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
مولانا مودودیؒ نے 1941 میں جماعتِ اسلامی کی بنیاد رکھی۔! وہ سارے ہندوستان ہی کو ایک مسلم ریاست بنانے کے حق میں تھے۔ ان پر بھٹو نے الزام لگایا کہ وہ پاکستان بنانے ہی کے حق میں نہیں تھے جو کہ بھٹو جیسے اعلیٰ ظرف انسان کو زیب نہیں دیتا مگر یہ وہ حالات تھے جہاں اپنے مفاد کے لیے بھٹو جیسا انسان بھی الزام تراشیوں پر اتر آئے تھے۔
تحریکِ آزادی
28 جنوری 1933 کو چوھدری رحمت علی نے لندن سے اپنا مشہورزمانہ پمفلٹ Now or Never – Are we to live or perish for ever جاری کیا! جس میں پنجاب، سندھ، بلوچستان، شمال مغربی صوبہ جسے افغان صوبہ بھی کہا جاتا ہے! اور کشمیر سمیت ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا اور جسکا نام پاک ستان رکھا۔! نوٹ کیجیے اس میں بنگال شامل نہیں تھا۔ Saqoot-e-Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part I
سن تیس کے آواخر میں پاکستان کی تحریک زور پکڑ گئی۔ خاص کر بنگال میں یہ تحریک زوروشور سے جاری تھی۔
مجیب الرحمان اور اسکے وہ ساتھی جو بعد میں بنگلہ دیش بنانے میں ملوث نکلے! وہ پاکستان کے حصول کے لیے دیوانہ وار جلسوں جلوسوں اور تحریکوں میں شامل ہوا کرتے تھے۔! ادھر مغربی حصوں میں ایک نوجوان بھٹو تحریکِ پاکستان کے زبردست حامی اور کارکن تھے۔
یہاں پر ہندوؤں کی مسلمان سے نفرت کی ایک جھلک دکھانا ضروری ہے:! مجیب الرحمان اپنی سوانح عمری میں لکھتا ہے:
“میرا ایک ہندو دوست تھا، ہم اکثر ہمارے گھر میں کھیلا کرتے تھے،! اور کھانا بھی کھاتے تھے۔ ایکدن وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔! دوسرے دن وہ روتا ہوا ملا اور کہنے لگا کہ تم آئندہ ہمارے گھر نہیں آنا۔ میں نے پوچھا کیوں؟ تو کہنے لگا میری ماں نے مجھے سخت ڈانٹا ہے! ، تمہارے جانے کے بعد سارے گھر کو دھویا ہے اور وہ برتن بھی پاک کیے ہیں جن میں تم نے کھایا”
ہندوؤں کی بدلتی ہوئی روش سے اسقدر نفرت ہندوؤں میں پائی جانے لگی تھی! اور اسکی انتہا آجکل بی جے پی کی مودی حکومت ہندوستان میں سرکاری سطح پر قائم کررہی ہے۔
ابتدائی شورشیں
تقسیمِ ہند کے وقت جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔! تقسیمِ ہند کے فوری بعد ہندو حکمرانوں جس میں نہرو، عبدالکلام آزاد د وغیرہ شامل تھے نے سرعام یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ یہ نومولود ریاست زیادہ دیر تک قائم نہیں رھے گی اور عنقریب پاکستان ختم ہو کر دوبارہ ہندوستان سے آ ملے گا۔ Saqoot-e-Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part I
مگر اس ضمن میں عملی کام بھی ہندوستان کی جانب سے اسی وقت ہی شروع ہو گیا تھا۔! اس کی مثال پاکستان کی تشکیل کے بعد سب سے پہلا شوشا زبان کا تھا! کہ پاکستان کی سرکاری زبان بنگالی کو ہونا چاہیے۔
اس ضمن میں قائدِ اعظم نے مارچ 1948 میں بنگال کا دورہ کیا! اور ڈھاکہ، چٹاگانگ اور پھر اپنی الوداعی تقریر میں واضح الفاظ میں کہا کہ بنگالی بنگال کی زبان رہے گی! اور اسکو کوئی ختم نہیں کرسکتا! مگر پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہی ہو گی!
ایک اور فتنہ اُسی وقت برپا ہو گیا!جب 11 اگست 1947 کو قائدِ اعظم نے اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کی اور جس میں انہوں نے پاکستان کو ایک سیکولرازم ریاست بنانے! کا عندیہ موجود تھا۔ اس پر اسمبلی کے اندر مولانا شبیر عثمانی اور اسمبلی سے باہر مولانا مودودی نے اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک شروع کر دی۔
سیاسی بحران
بدقسمتی سے بابائے قوم اس نئی ریاست کی تشکیل کے صرف 13 ماہ بعد خالقِ حقیق سے جا ملے! اور پاکستان میں سیاسی قیادت کا پہلا فقدان رونما ہونے لگا۔ Saqoot-e-Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part I
اس ضمن میں قائدِ اعظم کے رفیق محترم لیاقت علی خان نے انجان مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے! افواجِ پاکستان کو کشمیر میں عین اس وقت جب سری نگر انکے قدموں میں تھا، کاروائی سے روکدیا۔! اس قدم نے پہلی فوجی بغاوت کو دعوت دی مگر وہ منصوبہ بننے سے پہلے ھی افشا ہو گیا۔ یہ وہ سازش تھی جس میں معروف شاعر فیض احمد فیض ایک اہم رکن تھے۔ فیض صاحب اور انکو ایک اور دوست کٹر کمیونسٹ تھے اور کمیونزم کے حامی تھے لہذا یہ بھی ایک وجہ تھی کہ یہ سازش کبھی بغاوت نہ بن سکی!
مولانا مودودی اور مولانا شبیرعثمانی کی تحریکوں نے حالات کو سنورنے نہ دیا!
لیاقت علیخان کی لاکھ کوششوں کے باجود کوئی تسلی بخش نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔! اس دوران لیاقت علیخان کے قتل نے حالات میں مزید پچیدگی ڈال دی۔
بحران اسقدر شدید تھے کہ 1956 تک ملکی سیاست کے علمبردار کسی قسم کا آئین مرتب کرنے سے قاصر رہے! اور 1935 ہی کے ایکٹ کو کچھ ترامیم کے ساتھ قبول کر لیا۔! ملکہ برطانیہ کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہوا کرتا تھا۔
افسوسناک بات یہ تھی! کہ قائدِ اعظم کے اکثر رفقا نے بھی نوزائیدہ پاکستان کی عوام کی خدمت کی بجائے افسرشاھی کے ساتھ ملکر ملک کو لوٹنا شروع کر دیا۔
جائدادوں کی من پسند تقسیم شروع ہو گئی اور نئے نئے امرأ جو کبھی چاپلوسیوں کے رسیا تھا اب امرأ کی صف میں شامل ہونے لگے۔
افسرشاھی
یہ طبقہ نہ ہی تو کلی طور پر سیکولرازم کا حامی تھا! نہ بنیاد پرست بلکہ انکا مفاد صرف اور صرف ذاتی نوعیت کا تھا – جائدواوں اور اعلیٰ نوکریوں کا ہتھیانا۔ راتوں رات ترقیاں کرنے والے فوجی آفیسرز، دکلا، سرکاری ٹھیکدار اور نودولتیے اعلیٰ عہدوں پر برجمان ہونے لگے۔ مختصر ترین مدت میں قائدِ اعظمؒ کا سبق فراموشیوں کی جانب دھکیلا جانے لگا۔ Saqoot-e-Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part I
کم و بیش ایسے ہی حالات مشرقی پاکستان کے تھے۔ افسرشاھی عروج پا رہی تھی۔
کل تک جو کمظرف تھے وہ جائدوں کو ہتھیانے اور عہدوں پر قبضے کرنے میں مصروف تھے۔! حق والوں کے حقوق تلف ہو رہے تھے!
بدقسمتی سے نوزئیدہ پاکستان کی سیاسی قوتیں شدید ناکامی کا شکار تھیں۔ وہ کوئی بھی مستحکم حکومت سازی نہیں کر پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ایک بار اندرونی سازشوں نے سر اٹھایا۔
ایک مثال یہ تھی کہ فیروزخان نون جو بذاتِ خود جاگیردار تھے! انہوں نے اپنی وزارت میں زرعی اصلاحات کریکسر نظرانداز کردیا !اور انکی شدید مخالف کی، اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی عروج پر تھی! اور اسمبلیوں میں شدید قسم کا گالی گلوچ ہونے لگا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ مشرقی پاکستان کی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شاہد علی کو 1958 کے ہنگاموں میں گولی مار کر مار دیا گیا۔ اسکے خلاف مشرقی پاکستان میں شدید احتجاج ہوا۔
عام انتخابات جو 1958 میں ہونے تھے حکومتِ وقت نے اپنی شکست کے خوف سے ملتوی کر دئیے! ، افراتفری، مہنگائی عروج تک پہنچ گئی۔ زرِمبادلہ کے ذخائر ختم چلے گئے۔۔۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ حالات کس سمت جا رہے ہیں۔
پہلاآئین
پاکستان کا پہلا آئین 23 مارچ 1956 کو نافذ ہوا۔ مگر اسکندرمرزا نے خود کو مضبوط ترین کرنے کے لیے آئین کے نفاذ کو مشروط کر دیا! Saqoot-e-Dhaka – Kyun aur Kaisey? Part I
ساتھ ہی انہوں نے اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئینی اور دستوری طریقوں سے انحراف کیا اور سیاستدانوں اور فوجی افسروں سے رابطے مضبوط کیے۔
مگر 1958 کے فسادات کے بعد اسکندرمرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو وہی آئین منسوخ کر دیا جسے بنانے کے لیے 9 سال لگے اور مارشل لأ لگا دیا۔ اسمبلیاں برخاست کر دیں ایک بات جو اسکندرمرزا نہیں سمجھ پایا وہ یہ تھی کہ اسکا کافی مدت سے دیرینہ دوست ایوب خان بھی اقتدار پر قبضہ کرنے کے درپے تھا۔
چونکہ وہ آئین جس نے اسکندرمرزا کو صدربنایا وہ برخاست ہوتے ہیں اسکندرمرزا کی صدرات بھی ختم ہو چکی تھی مگر وہ مارشل لا کو اٹھانے کا مجاز نہ رہا۔ چنانچہ 27 اکتوبر 1958 اسکندرمرزا سے استعفیٰ لے لیا گیا اور ایوب خان اقتدار پر برجمان ہو گیا۔
سقوطِ ڈھاکہ – کیوں اور کیسے؟ پارٹ 2
Saqoot-e-Dhaka, Bangladesh, Zulifqar Ali Bhutto, Shaikh Mujib ur Rehman, General Yahya, General Ayyub, Pakistan History
بقلم مسعود
Add Comment