Muslim
سلیمانی کا قتل
بغداد کے ائرپورٹ پر امریکی دھشتگرد حملے میں ایرانی جرنل قاسم سلیمانی انتقال کر گئے۔ قاسم سلیمانی ایران کی خفیہ فورس قدس کے سربراہ تھے! اور بزبانِ عام ایران میں صدر خامینی کے بعد دوسرے طاقتورترین انسان تھے۔
عراق میں آئی ایس آئی ایس کے خاتمے میں قاسم سلیمانی کا بہت اہم ہاتھ تھا۔ایران میں قاسم سلیمانی کی قتل پر تین روز سوگ کا اعلان کرتے ہوئے! ایران نے امریکہ کو اس قتل کے خوفناک نتائج کا چیلنج دیدیا۔
آنے والے دنوں میں دنیا میں دھشتگردی کی ایک نئی لہر جنم لینے والی ہے! جس میں مشرق اور مغرب دونوں شامل ہونگے۔ امریکہ ایک مدت سے ایران کو مشتعل کرنے کی کوشش میں مصروف تھا! اور اس ضمن میں ایران پر مختلف اقتصادی پابندیاں بھی لگا رکھی تھیں۔یہ قتل اس لڑی کا ایک اہم حصہ ہے۔ اب اس پر ایران کا ری ایکشن قابلِ دید ہو گا۔ Muslim Muslim
سوچ
ہم لوگ جو یورپ میں رہتے ہیں! اور عام سظح کے لوگوں کی باتیں سنتے ہیں، ہمارا کلیجہ کس قدر جلتا ہے! کہ ان لوگوں کی سوچ میں ایسے قتل بالکل جائز ہیں۔! اِن لوگوں کے نذدیک اس خطے کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا بھی اگر ممکن ہو سکتے تو اڑا دینا چاہیے۔ قصور ان کا نہیں۔ Muslim Muslim Muslim Muslim
قصور ہم مسلمانوں کا اپنا ہے۔ Muslim Muslim Muslim Muslim
اس وقت دنیائے عالم میں لگ بھگ 57 مسلم ممالک ہیں۔! مگر ہمارے اندر دو ممالک ایسے نہیں جن میں کسی قسم کا اتفاق اور ہم آھنگی ہو۔! دو ممالک ایسے نہیں جن کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ ہو کہ وہ ایک دوسرے کا دفاع کریں۔! اس وقت صرف ایک ایسی تنظیم ہے جس کا مقصد صرف اور صرف سعودی عرب کی حفاظت کرنا ہے۔! چونکہ اس تنظیم کو روٹی ٹکر سعودیہ دیتا ہے لہذا انکی حفاظت انکی ذمے داری ہے۔! درحقیقت سعودیہ نے یہ تنظیم بنائی ہے ایران کے خلاف ہے۔
اتفاق
عالمِ اسلام میں اتفاق ہو کیسے؟! انکے عمل دفتر میں اگر کچھ ہے تو وہ صرف ایک دوسرے کے خلاف کھوکھلے فتوے لگانا! اور ایک دوسرے کو حقارت کی بدترین مثال بنانا ہے۔! عام سطح کے یورپئین کہتے ہیں کہ ؔسنی شیعیوں اور شیعہ سنیوں کو قتل کر رہے ہیں اگر ہم نے کر دیا تو کیا ہوا”؟ Muslim Muslim Muslim Muslim
یہی ہمارا شیوہ ہے۔ ایک دوسرے کو قتل کر کے اپنے عام کو مومن اور دوسروں کا کافر قرار دینا۔! ایک دوسرے سے حکومت چھین کر اسکی آنکھیں نکلوانا دینا!، اسکا سر تن سے جدا کر دینا، اس کو بدترین سزا دینا ہمارا شیوہ رھا ہے۔! ہمارے تاریخ اگر تابدار ہے تو ساتھ ہی بھیانک بھی ہے۔ !اس قدر خون ہمارے تاریخ میں ہے کہ آج کل تو پھر بھی امن محسوس ہوتا ہے۔ Muslim Muslim
فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ہم مسلمان ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے – اب کافر ہمارا خون بہاتے ہیں۔ Muslim Muslim
کبھی برما میں اور کبھی فلسطین میں! لبنان میں تو کبھی چین میں! کبھی شام میں تو کبھی افغانستان میں!
اور ڈیڑھ ارب مسلمان اسکے سامنے بالکل بے بس ہیں! ہمارے ہاتھ اسقدر الحاد میں سنے ہوئے ہیں! کہ یہ ہاتھ صرف دعاؤں کے لیے اٹھ رہے ہیں! – وہ بھی بے عمل دعاؤں کے لیے! ہماری ایک ہی تمنا ہے کہ ہم کچھ نہ کریں اور اللہ ہمارے دشمنوں کو ملیا میٹ کر دے۔
شاید ہم نے اپنی تاریخ سے سیکھا ہی یہی ہے۔! میں اس معاملے میں مسلمانوں کی آخری بڑی سلطنت کو اس کا زبردست مجرم قرار دوں گا۔
قصوروار
سلطنتِ عثمانیہ جس نے 614 سال تک حکومت کی،! وہ بدلتے ہوئے یورپ اور روس کی ایک ایک رگ کو بخوبی جانتی تھی! اور انکا مشاہدہ کر رہی تھی اسکے باوجود اس سلطنت نے امتِ مسلمہ کو بدلنے کی رتی برابر کوشش نہیں کی۔! بلکہ اسکے برعکس وہی کئی کئی سو سال پرانے اطوار پر حکومت استوار رکھی اور اس کو رتی برابر جدت نہ دی۔! ایک پل بھر کے لیے کوشش نہ کی کہ بدلتے ہوئے حالات کو بھانپا جائے اور یورپ کی دن دگنی رات چگنی ترقی کو اپنایا جائے! اور اس بدلتے ہوئے نظام سے سیکھا جائے۔ علم و ہنر میں عالی مقام پیدا کیا جائے۔! سائنس کو عروج دیا جائے۔ جدید اسلحے کی ساخت اور تباہ کاری کو سمجھا جائے اور اس میں مہارت حاصل کی جائے –
نہیں بلکہ 1923 تک تلواروں کے سائیوں میں جذباتی نعرے لگاتے رہی۔! اگر سلطنتِ عثمانیہ مستقبل شناس ہوتی تو عالمِ اسلام میں ایک زبردست اتحاد پیدا کر سکتی تھی۔! کیونکہ آنے والے حالات نے بتایا کہ جب یہ سلطنت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی! اسوقت اسکو بچانے کے تمام شمالی افریقہ کے ممالک کیساتھ ساتھ برطانوی ہندوستان تک اسکے بچاؤ کی زبردست تحریکیں چلائیں گی۔! مگر نوشتہ تقدیر لکھا جا چکا تھا کہ سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہو!
یہ سلطنت عالمِ اسلام کے لیے ایک اہم کلیدی رول ادا کر سکتی تھی مگر یہ سلطنت مسلمانوں کی عام روش کی طرح طاقت کی ہوس اور آپس کی چپقلشوں میں دن رات ڈوبتی چلی گئی اور بالآخر یورپ کو اسکو ختم کرنا کوئی مشکل کام نہ رھا۔ یورپ نے اپنے چھوٹے سے علاقے سے نکل کر تمامتر مسلم ممالک کو قبضے میں لے لیا۔ ادھر روس نے اپنے مشرقی، جنوب مشرقی، جنوب مغربی علاقوں پر جو مسلم ریاستیں تھیں انکو ہتھیا لیا اور ہم مسلمان کچھ نہ کر پائے۔
آلِ سعود
سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے نے جہاں مسلمانوں کو زک پہنچائی وہاں مستقبل کے لیے ایک ایسا داغ لگایا جسے آج کے مسلمان دھونا چاہیں بھی تو نہیں دھو سک رہے۔ وہ داغ ہے آلِ سعود کا سرزمین مقدس میں سعودی سلطنت کے قیام کا!
سرزمینِ مقدس جہاں سے اسلام کا ظہور ہوا اور جس نے دنیائے عالم کو ایک نئی روشنی بخشی وہ اب ایک خاندان کے چنگل میں پھنس گیا ہے۔ وہ خاندان جس نے اسکو اپنے ذاتی اور خاندانی مفاد کو بچانے کے لیے امریکہ اور برطانیہ کے آگے گروی رکھدیا ہے۔ تیل نکالیں تو انگریز! اسکو استعمال کریں تو انگریز! اسکی قیمتوں کا تعین کریں تو انگریز! اسکی ترسیل کریں تو انگریز! جب کہ ان فرنگیوں نے ان عربوں کے منہ بند کرنے لیے انہیں تیل کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ اور ان عربوں نے اس دولت سے ذلت و رسوائی کو جو کارنامہ انجام دئیے تاریخ ان سے بخوبی واقف ہے!
اگر سلطنتِ عثمانیہ مسلمانوں کی مجرم ہے تو اب یہ عرب اسی درجہ مجرم ہیں۔ ان عربوں سے اپنے گھر کو بچانے کے لیے مسلمانوں کے خون کی قیمتیں لگائی ہیں۔
آج ہم مکمل طور پر بے بس ہیں۔ فرنگیوں نے جب چاھا جہاں چاھا ہمارے اثاثوں پر حملہ کیا اور ہم کچھ نہیں کر پائے۔ فلسطین، لبنان، افغانستان، چیچنیا، برما، چائنا میں ایک مدت سے مسلمانوں کو خون میں لت پت دیکھا مگر ہمارے اندر رتی برابر غیرت نہ جاگی۔ او آئی سی بنا کر ہم سالہاسال قراردادیں پاس کر لیتے ہیں مگر عمل صفر!
قانونِ الہٰی
اللہ کا قانون ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کے پیغام کو پا کر اس سے منحرف ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر کوئی دوسری قوم برجمان فرما دیتے ہیں – ضروری نہیں کہ وہ قوم مسلم ہی ہو! یہی ہوا ہے اور ہو رھا ہے! ہم نے اللہ کے پیغام کو بہت بری طرح بیدردی سے مسخ کر دیا ہے! ہماری فطرتوں مین صرف بیان بازیاں رہ گئی ہیں کہ “عمرِ فاروق ایسے لیڈر تھے، علی ایسے لیڈر تھے، اسلام یہ تھا، اسلام وہ تھا” – مجھے اسکی فکر نہیں کہ وہ کیا تھے، کیونکہ وہ جو تھے تاریخ انکو سنہری الفاظ سے یاد رکھے گی! مجھے فکر صرف یہ ہے کہ ہم کیا ہے؟ کیا ہم اس اسلام کے حق بجانب ہیں؟ کیا ہمارے کرتوت اسکے حق بجانب ہیں؟ کیا ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ہم عمرِ فاروق یا علی کی مثالیں دیں؟
اسوقت علم و ہنر و فن میں ہم دنیا کی پست ترین قوم ہیں! پچھلے سو سال میں ہمارے پاس ایک بھی ایسا قابل تحسین عمل پیشِ دفتر نہیں جس پر ہم ناز کر سکیں! ہماری پالیساں تک ہماری نہیں ہوتیں! علما، فقہا، اھل علم، اھل ہنر، اھل سیاست یہاں تک کہ عوام بھی غفلت کی بدترین مثال ہیں! ورنہ کیا اب بھی ہمیں اس اشارے کی ضرورت ہے کہ مسلم اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے! ایکسا اتحاد جس میں رتی برابر مفاد نہ ہو!
امتی
اقبال نے درست فرمایا تھا: ؎ امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں!
ہم وہ مسلمان ہیں ہی نہیں جو نیٹو جیسا اتحاد پیدا کر سکیں! کیوں کہ ہمارے اپنے اپنے مفادات ہیں! ان مفادات کے لیے ہم اپنا ضمیر، اپنا دین، اپنا ایمان تو بیچ سکتے ہیں مگر اتحاد نہیں کر سکتے۔ وہ خواب کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے بمشکل شرمندہ تعبیر ہو گا۔ اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک ہمارے اندر مفادات کی غلاظت کا رنگ سنا ہوا ہے! عربوں کو اپنے مفادات ہیں اور عجموں کو اپنے! لہذا وہ مسلمان جو ایک اللہ اور ایک رسول کو بنیاد بنا کر اتحاد کر لیں وہ ممکن نہیں!
اگر مسلمان صرف اللہ اور رسول کو بنیاد بنا کر اتحاد کر لیں تو بخدا انکو زیر و زبر کرنا آسان نہیں ہو گا – مگر ایسے مسلم ناپید ہیں!
اس وقت عالم اسلام کو ایسے اتحاد کی سخت ضرورت ہے جو صرف اور صرف اللہ کے لیے ہو! اس میں یہ بھول جائیں کہ کون سنی ہے اور کون شیعہ! یہ اللہ پر چھوڑ دیں – اسی میں ہماری نجات ہے!
بقلم: مسعودؔ
Add Comment