بیاضِ وفا – حصہ دوم
[spacer size=”5″]احسانؔ ایسا تلخ جوابِ وفا ملا
ہم اس کے بعد پھر کوئی ارماں نہ کر سکے
امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کیا ہوتا
بلا سے کچھ ہو ہم احسانؔ اپنی خو نہ چھوڑیں گے
ہمیشہ بے وفاؤں سے ملیں گے باوفا ہو کر
یہ دستورِ وفا صدیوں سے رائج ہے زمانے میں
صدائے قرب دی جن کو انہی کو دور دیکھا ہے
عشق و جنوں کے باب میں چاہیے کارِ رفتگاں
اے مرے جذبۂ وفا جی کا ذرا زیاں تو ہے
پابندئ وفا ہے تو پھر مدعا سے کام
مر جائیے کسی کی تمنا نہ کیجیے
پھر بھی تری وفا پہ مجھے اعتبار ہے
جاتا ہوں روز وعدۂ فردا لیے ہوئے
حشر کا کون اعتبار کرے
آپ وعدہ وفا نہیں کرتے
ذوقِ وفا نہیں تمہیں، دادِ وفا تو دو
روتے نہیں جو ساتھ مرے، مسکرا تو دو
کیوں برا کہتے ہو تم اپنے جفا کاروں کو
آج تک کوئی نہیں سمجھا وفاداروں کو
کچھ دن کے بعد اس سے جدا ہو گئے منیرؔ
اس بے وفا سے اپنی طبیعت نہیں ملی
نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہر گز
گلہ تب ہو اگر تو نے کسی بھی نباھی ہو
ہمارے پاؤں میں تو تم نے زنجیرِ وفا ڈالی
تمہارے ہاتھ سے کیوں رشتہء مہروکرم چھوٹا
ہمیں بھی آ پڑا ہے دوستوں سے کام کچھ یعنی
ہمارے دوستوں کے بے وفا ہونے کا وقت آیا
انتخاب و پیشکش: مسعودؔ
Add Comment