پھولوں کی رت ہے
پھولوں کی رُت ہے ٹھنڈی ہوائیں
اب انکی مرضی وہ آئیں نہ آئیں
انکی جفا یا اپنی وفائیں
کیا یاد رکھیں کیا بھول جائیں
اتنا بتا دے غم دینے والے
آنسو بہائیں یا مسکرائیں
رودادِ الفت کر لیں مکمل
کچھ تم سناؤ کچھ ہم سنائیں
ساحل بھی اپنا طوفاں بھی اپنا
اب پار اتریں یا ڈوب جائیں
بھولی ہوئی بات اک یاد آئی
لیکن سعیدؔ اب کسکو سنائیں
شاعر: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ہو گیا صاحب! اب محبت میں وہ مقام ہے کہ تم آؤ یا نہ آؤ کوئی فرق نہیں پڑتا، دل پہ اتنے جبر سہے ہیں، اتنے دکھ سہے ہیں کہ اب تو کوئی دکھ دکھ نہیں لگتا، کوئی غم غم نہیں لگتا، جب اپنی وفائیں یا تمہاری جفائیں کیا یاد رکھیں اور کیا بھول جائیں؟ کوئی فرق پڑتا ہے؟ بس تنا بتا دے، ہمیں محبت کے اس مقام پر ہنسنا چاھیے یا رونا؟ یا یہ سنا دو کہ کیا تمہیں رودادِ محبت یاد ہے؟ سناؤ تو ذرا کہ کہاں کس نے بیوفائی کی؟ پر نہیں تمہیں ان باتوں سے کیا سروکار اب، تمہیں کیا کہ ہم ڈوبیں یا پار اتریں – بس ایک بھولی بسری بات یاد آئی تھی، تم سے وابستہ سی، پر اب کس کو سنائیں؟ کیا فائدہ؟
[embedyt] https://www.youtube.com/watch?v=xMtUWefePTs[/embedyt]
پھولوں کی رت ہے
Add Comment