Meri Shairi Shab-o-Roz

کانٹے

کانٹے

کانٹے

مجبوریوں کا سفر ہے طویل، اس رہگذر میں کانٹے ہیں
پھولوں سے بھرا ہی ہو گا یہ جہاں، پر میری نظر میں کانٹے ہیں

اک بات تو تُو نے بھی آزمائی ہی ہو گی اے دوست
کل تلک جس سفر میں گل تھے آج اسی سفر میں کانٹے ہیں

یہ ہے دستورِ دنیا، یہ حکم ہے اِن ناخداؤں کا
زر والا تو خوش ہے، بیزر کے مقدر میں کانٹے ہیں

آزمانے جاتے ہیں آج خدا کی رحمت کہ کیوں
مقدر کی شکستگی سے میرے ہی گھر میں کانٹے ہیں

تم آنے کا اقرار تو کرو اے صنم کہ ہم!
بنا دیں گے اسے گل و گلزار، جس رہگذر میں کانٹے ہیں

کل جب تو نے بے رخی سے میرے در کو چھوڑا
تو دل یہ سمجھا کہ اب میرے گھر میں کانٹے ہیں

عہدِ وفا چھوڑا، رشتہَ الفت توڑا، اے صنم تو نے
اب خیالوں میں بھی نہ آؤ اے مسعودؔ کہ میری فکر میں کانٹے ہیں

kaantey phool safar dost

Shab-o-roz
Image of Shab-o-Roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

81 Comments

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW