ہڈحرامی
میں نے پاکستان میں بہت زیادہ ہڈحرامی دیکھی ہے۔جس سے بات کی اُس میں تقریباً ۹۵ فیصد بندہ یہی جواب دے گا: ’’ویلا ہوں جی‘‘ ۔ یعنی فارغ ہوں۔
ہماری قوم میں کام کرنے کا جذبہ نہیں، ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ راتوں رات امیر بن جائیں اور یہ نہ پوچھا جائے کہ ہمارے پاس تونگری کہاں سے آئی ، جیسے ہو سکے پیسہ جمع کر لیا جائے، ہر بندہ ہی داؤ لگائے بیٹھا ہے۔یہاں تک کہ اگر آپ کی گاڑی کہیں پبلک جگہ جا کر رکے تو جو لوگ طرح طرح کی اشیا بیچنے آتے ہیں، وہ بھی داؤ پر ہوتے ہیں۔
اگر آپ نہ بھی لینا چاہو تو بھی بیچنا چاہیں گے۔ ایک جامن فروش سے پالا پڑا، جو گاڑی میں تقریباً گھس کر جامن جبراً دینے پر تلا ہوا تھا! چھوٹی موٹی جاب تو ہمارے ہاں ذاتی توہین سمجھی جاتی ہے۔
ہڈحرامی کا یہ حال ہے کہ مکان بنانے والے مزدور اور مستری چند ایک اینٹیں لگائیں گے اور پھر چائے پینے بیٹھ جائیں گے۔ذرا سی بارش ہوئی تو کام ٹھپ! یہاں ڈنمارک میں تیزبارش میں میں بھی تعمیر کا کام جاری رہتا ہے!
ایک ایک گھر میں دس دس ہٹے کٹے بیٹھ کر کھانے والے ہوتے ہیں اور کمانے والا ایک۔اکثر یہی جملہ سننے کو ملا کہ “جی بھائی یا باپ باہر ہیں ہمیں کیا ضرورت ہے کام کرنے کی”
سرکاری اداروں میں آپ کا جائز کام بھی دِن بھر کی تگ و دو اور منت سماجت سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کے پاس وافر وقت ہے اتنا کہ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ وقت کہاں برباد کریں۔
آپ کی گاڑی پنکچر ہوجائے تو ۱۰ بندے پاس کھڑے ہو کر آپ کو طرح طرح کے ’مفید‘ مشورے دیں گے۔ وہاں وقت کا احساس نہیں ہوتا!
میرا یہ تجزیہ ہے کہ اِس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نہ غربت کا ہے اور نہ ناخواندگی کا، نہ بھوک کا ہے اور نہ وسائل کی کمی کا۔ بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اِس وقت بجلی کا ہے۔
جس ملک میں روزانہ ہزاروں صنعتی یونٹ بجلی کی کمی کی وجہ سے بند ہو رہے ہوں، وہ ملک معاشی طور پر کیا ترقی کریگا؟
سچ یہ ہے کہ پاکستان کو تباہ کیا جارہا ہے۔ بجلی کی کمی ہرگز نہیں! پاکستان میں بجلی کی اتنی پیداوار ہے کہ سارے ملک کو فراہم کی جاسکتی ہے۔
بجلی کی قلت بتائی جاتی ہے ، بجلی کی پیداوار میں اور صارفین تک پہنچانے میں تین فریق کارعمل ہیں:
۱: بجلی پیدا کرنے والے ادارے
۲: بجلی پہنچانے والے ادارے
۳: صارفین
Add Comment