اسمائے حسنہa
میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ محلوں میں، گلیوں میں، بازاروں میں، روڈوں پر اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام اور نبی کریم ﷺ کے اسمائے حسنہ اور قرآنی آیات جا بجا دیواروں پر لکھے ہوئے ہیں۔!
لکھنے والوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ جب بارش کا پانی اِن دیواروں پر پڑتا ہے! تو وہ پانی انہیں پرنالوں سے ہوتا ہوا انہیں نالوں میں بہہ جاتا ہے! جہاں شہری نجاست کا دوسرا پانی!
روڈوں پر جو دیواریں ہیں اُن پر لکھے ہوئے اسما یا آیات پر جب بارش کا پانی پڑتا ہے! تو وہ انہیں فٹ پاتھوں پرگرتا ہے! جہاں انسان کے پاؤں ہوتے ہیں۔!
ایک لمحے کو یہ دیکھ کر میں اِس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا ہم ربّ العالمین اور رحمت العالمینؐ سے عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں! یا اِن مقدس اور جلیل القدر اسمأ کی بے حرمتی کر رہے ہیں؟
شاید بات صرف سوچ کی ہے۔! ہمارے ہاں ہر کوئی عالم ہے اور ہر کسی کا اپنا اپنا فتویٰ ہے۔! میری ناچیز اور ناقص رائے میں یہ بے حرمتی ہے جو نہیں ہونی چاہیے، اللہ تعالیٰ اور نبی کریمؐ کے مبارک اور صفاتی ناموں کو یوں پبلک مقامات لکھنے سے دریغ کرنی چاہیے!
جنون کسی بھی شے کا ہوجنون شعور کو ماؤف کر دیتا ہے۔! یہی حال ہمارے ہاں مذہبی فکر رکھنے والوں کا ہے، ہمارا مذہبی ذہن ماؤف ہوچکا ہے، ہمارے پاس فقط جنون رہ گیا ہے۔! اِس جنون نے جو گل کھلائے ہیں وہ ہماری مذہبی ابتری میں بھی نظر آتے ہیں۔اور ابھی مزید نظر آئینگے۔ مذہب کے نام پر نام نہاد ملا اور مولوی اس ملک میں انتشار پھیلائیں گے!
جنوبی پنجاب میں ابھی بھی ہمیں مٹی کے بنے ہوئے کچے مکانات نظر آتے ہیں۔! بستیوں کی بستیاں کچے مکانوں پر محیط ہے۔! وہ مکانات جہاں انسان ہی بستے ہیں۔ وہ انسان جو خود کو دِن بھر کھیتوں میں کھلیانوں میں کھپاتے ہیں تاکہ زرداری جیسا بے غیرت صدر کھاپے! یہ وہی بے توقیر اور بے قیمت لوگ ہیں جن کی قسمت اس ملک کے ناسورسیاستدانوں اور امیرلوگوں نے یوں بنا دی ہے کہ گویا وہ جانور ہیں جنکو یہ لوگ جب چاہیں جیسے چاہیں ہانک لیں! انکی توقیر صرف اس وقت ہے جب ووٹ لینے ہوں ورنہ انکا کوئی پرسانِ حال نہیں!
میں نے دنیا میں کہیں یہ نہیں دیکھا کہ ملک کا صدر عوام پر جبراً ایسے خفیہ ٹیکس ڈالے جو اب ڈالے جا رہے ہیں۔عوام ایسے ایسے ٹیکسز کے بوجھ تلے دب چکے ہے کہ جنکا ان کو علم تک نہیں!
ایک موبائل کنکشن پر جو خفیہ ٹیکس ہے کوئی ہے جو حساب لے سکے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ وہ دبئی میں عالیشان محل بنانے کے کام آرہا ہے۔! وہ زرداری جیسے ناسور کی پیسے کی ہوس پوری کرنے کے کام آرہا ہے۔مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ میں نے سفیدپوش انسانوں سے زرداری کو گالیاں دیتے سنا ہے! وہ لوگ جنکا کوئی بس نہیں چلتا تو وہ گالیاں ہی دے سکتے ہیں۔ جس سمت جاؤ مہنگائی کا رونا رویا جاتا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں!
Add Comment