پسماندگی کا عالم
دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ جب پیداوار کو بڑھایا جائے تو وہاں پر جدید مشینری استعمال کی جاتی ہے، طرح طرح کے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں کہ فصل میں افادیت ہو۔ یہاں تک کہ ایک ترکھان یعنی بڑھئی تک کے لیے جدید ترین مشینیں ایجاد کر لی جاتی ہیں تاکہ اسکے کام میں آسانی ہو مگر میں نے دیکھا کہ ہمارے ہاں ابھی تک ۲۰۰۹ میں بھی کسان ہل چلاتے ہیں اور ہلوں کے آگے بیل جوتے ہوئے ہوتے ہیں!!
میں نے پسماندگی کا یہ عالم بھی دیکھا ہے! کہ تپتی ہوئی دھوپ میں کسانوں کی عورتیں اور کمسن بچے ہاتھوں سے چاولوں کے کھیتوں میں فصل کاٹ رہے ہیں۔!انکے جسموں سے پسینہ یوں بہہ رہا ہے گویا وہ خشک برسات میں نہا رہے ہیں شاید یہی پسینہ جب فصلوں میں جذب ہوتا ہے! تو فصلوں میں وہ غذائیت پیدا ہوتی ہے جس پر ہم جیسے ناشکرے اپنے اپنے اے سی والے گھروں میں بیٹھ کر مزہ لیتے ہیں۔!
کبھی ہم نے سوچا ہے کہ یہ فصل بونے والے انسان ہیں کہ جانور؟! اگر انسان ہیں تو اُن کی زندگیاں کیسی ہونگی؟! اُنکے بھی تو بچے ہیں،! جو انہی کی طرح کھیتوں میں اپنا بچپن، اپنا لڑکپن، اپنی شوخیاں، اپنی معصومیت بوتے اور کاٹتے پھر رہے ہیں تاکہ ہمارے بچوں کو اچھی غذا مل سکے۔کچھ لوگوں کے نزدیک یہ اُن کا نصیب ہے کہ وہ کسان ہیں! اور ہمیشہ کسان رہیں گے!
یہ سراسر غلط ہے! انسانی دنیا کی تقسیم خدا کی جانب سے نہیں ہے۔! یہ تقسیم ہم انسانوں کی بنائی ہوئی ہے۔ورنہ قدرت کے ہاں کوئی کسان ہے یا کوئی مالک، وہی قابلِ عزت ہے جسکے عوامل اچھے ہیں۔! ہم اِس تقسیم کو بدل سکتے ہیں، مگر بدلنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی سرمایہ دار یہ چاہتا ہے کہ یہ تقسیم ختم ہو!
کیونکہ یہی وہ حالات ہیں جو پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی نون لیگ اور پی پی پی برقراررکھنا چاہتی ہے کہ اگر ان کسانوں کو مزدوروں کو کامیوں کو علم کا شعور آ گیا تو انکی سیاست کا دیا گل ہو جائے گا لہذا انہیں اسی غربت میں رہنے دیا جائے اور انکی دولت پر اپنی اولادوں کو یورپ کے اعلیٰ شان درسگاہوں میں پڑھا لکھا کر انہی پر مسلط کرتے رہیں!
Add Comment