Meri Tehreerein Current Affairs Shab-o-Roz

Meri Tehreer: Diya Jalaey Rakhna

بدعنوانی اور عیاشی

یہ علاقے ابوظہبی کے ایک درندہ صفت عرب نے آباد کیے ہیں جس کا نام شیخ زایدالنایان ہے۔

یہ وہ سور ہے جس نے پاکستانی حکومتوں کو امدادیں دے! کر اپنے لیے رحیم یار خان، بہاولپور اور دوسرے علاقوں میں عیاشی کے اڈے بنوائے ہیں۔تاکہ جب یہ عرب شہزادے تیتر اور بٹیر کا شکار کھیلنے آئیں تو شکار صرف جانوروں ہی کا نہ ہو بلکہ اس میں زندہ جاوید انسانوں کی بیٹیاں بھی ہوں!

اِن عیاشی کے اڈوں پر بچیاں صرف اِس لیے پالی جاتی ہیں! کہ جب وہ سِنِ بلوغت کو پہنچتی ہیں، یعنی چودہ پندرہ برس کی عمر کو پہنچتی ہیں! تو یہ عرب سور آکر اُن معصوموں کے ساتھ ہوس کا کھیل کھیلتے ہیں۔ یہاں تک سننے کو ملتا ہے! کہ ہوس کا نشانہ بننے والی بچیوں کے ہاتھ پاؤں تک باندھے جاتے ہیں! اور وہ بچیاں وہاں صرف ایک رات کی مہمان ہوتی ہیں! کئی بچیوں کو اُس رات کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے۔

گھنواؤنے جرائم کی یہ صرف ایک تصویر ہے! ابھی مزید کیا کیا رنگ کھلائے جا رہے ہیں یہ بیان سے باہر ہیں۔اسی طرح کے محلات بہاولپور اور ملتان کے ساتھ دوسرے علاقوں میں بھی ہیں۔مری کے پرتعیش ہوٹلوں میں جو عیاشیاں کرائی جاتی ہیں وہ الگ بات ہے! بدعنوانی اور عیاشی کے یہ اڈے زیادہ تر نوازشریف اور بینظیر کے ادوارِ حکومت میں بنے تھے۔! اور آج یہی دو لیڈر پاکستانیوں کے لیے مشرف جیسے فرعون کے خلاف جہاد کرنے والے عظیم رہنما ہیں!!!!

پاکستان کے حالات دیکھکر ایک بات ذہن میں آتی ہے! کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا ہے۔

ہم نے پاکستان میں کوئی ایسا عمل نہیں کیا کہ ہمارے حال پر رحم کیا جائے۔! اچھائی بہت تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی۔شاید ہی اخلاقیات کی کوئی ایک ایسی بیماری ہے جو اس ملک میں نہیں پائی جاتی۔ جھوٹ کا بول بالا ہے! فحاشی کو عروج مل رہا ہے! چوربازاری، غبن، فراڈ ایک عام فعل سمجھے جانے لگے ہیں!! یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ کئی چیریٹی ادارے جو ٹی وی پر بیٹھ کر مدد مانگتے ہیں،! انہیں اُن علاقوں میں بھی لوگ نہیں جانتے،! جہاں یہ چیریٹی کا دعویٰ کرتے ہیں۔

جھوٹ بولے جاتے ہیں کہ مالاکنڈ وغیرہ میں لوگ واپس جانا شروع ہو چکے ہیں! اور انہیں پیسے دئیے جا رہے ہیں،! ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔!

اگر کسی کو چند سو روپے مل رہے ہیں! تو وہ بھی جان پہچان والوں کو! کھربوں روپوں کا قرضہ لیا جاتا ہے اور ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔

اگلا صفحہ

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW