افرا تفری
Meri Tehreer: Diya Jalaey Rakhna
افرا تفری کا ایک زبردست جنگل بسا ہوا ہے۔
جہاں انسان انسان نہیں چوپائیوں کی مانند ہیں جو اپنی اپنی بے حسی میں دوسروں پر سبقت لے جانے کی ضد میں مدہوش ہے۔
انسانوں کا ایک انبوہِ کثیر ہے مگر کسی کو کوئی فکر نہیں کہ معاشرے میں کیا ہو رہا ہے۔
پاکستانیوں نے یہ قبول کر لیا ہے کہ حالات جیسے ہیں ایسے ہی ٹھیک ہیں نہ اِن کی بہتری کی کوشش کی جانے چاہیے اور نہ ہی ان پر کوئی بات ہونی چاہیے کیونکہ بات کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، عوام کوحصولِ رزق سے فرصت نہیں، وہ سیاسی معاملات میں کیا دلچسپی لیں؟سب نے یہی سوچ رکھا ہے کہ جس گنگا میں سب بہہ رہے ہیں اُسی میں بہتے جائیں۔
کسی کو انسانی جان کی پروا نہیں۔
ٹریفک وحشی درندوں کی طرح رواں دواں ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے پر بضد ہے۔
لال بتی سے گزرنا فخر کی بات سمجھی جاتی ہے، جہاں no horn کا بورڈ ہے وہاں پر جان بوجھ کر بلا وجہ ہرن بجایا جاتا ہے!
راولپنڈی جیسے شہر میں لاقانونیت کی انتہا ہے۔ مری روڈ پر اسلام آباد جاتے ہوئے ایک بہت بڑا بورڈ نظر آتا ہے جس پر لکھا ہوا ہے: ’’ ٹریفک سگنلز اور قوانین کا پاس کرنا مہذب قوموں کی نشانی ہے‘‘ ۔ عین اُسی بورڈ کے نیچے میں نے ٹریفک قوانین کی زبردست توہین ہوتے ہوئے دیکھی ہے۔
ڈرئیونگ سیٹ پر بیٹھے انسان کو قطعاً اِس بات کی پروا نہیں کہ کسی کی جان جاتی ہے یا کسی کو چوٹ آتی ہے۔ کوئی اصول ٹوٹتا ہے یا کوئی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
ہر بندہ اِسی کوشش میں ہے کہ دوسروں سے سبقت لی جائے۔ صبر نام کی کوئی شے میں نے وہاں نہیں دیکھی۔ ریلوے پھاٹک کے کھلنے کے بعد کا منظر کسی طور پاکستانی عوام کو تہذیب کے زمرے میں شامل نہیں کرتا بلکہ یہ جنگل میں جانوروں کے اُس غول کی مانند ہے جسے شیر دکھا کر ہراساں کر دیا جائے اور وہ ادھر اُدھر ٹکریں مارنے میں لگ جائیں۔
۱۴ ،۱۴ سال کے بچونگڑوں کو موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں دلوائی ہوئی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ والدین فخر سے بتاتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو صرف ۱۴ سال کا ہے اور گاڑی چلاتا ہے!!
میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ فل سپیڈ گاڑیوں کے دروازوں میں بچے اور نوجوان بیٹھے ہوئے ہیں اور باہر لٹک رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کے والدین بھی انہیں کرتب کرتے ہوئے دیکھ کر محظوظ ہو رہے ہیں۔ ایک پل کو میں سوچنے لگا کہ خدانخواستہ آگے چل کر حادثہ پیش آ جائے تو یہی والدین رو رو کر قسمت کو ظالم کہنا شروع کر دیں گے کہ ہم سے ہمارا بچہ چھین لیا۔ کیا ہم خود اپنی تباہی کے ذمہ دار نہیں؟؟
میرے نذدیک وہ والدین criminal ہیں جو ٹریفک کے معاملات میں لاپروائی سے کام لیتے ہیں۔
Add Comment