Meri Tehreer – Political: Jamhooriyat Zindahbaad!
جمہوریت زندہ باد!!
نعرہ بازیاں
جمہوریت زندہ باد! عدلیہ کی بحالی زندہ باد!! سید یوسف رضا گیلانی زندہ باد! جسٹس افتخار محمدچوہدری زندہ باد! جنرل پرویز مشرف مُردہ باد! امریکہ دوست مردہ باد!
جی صاحب ہمارے ملک میں نعرے لگانے والوں کی کمی نہیں۔چار پیسہ لگا کر ، کرائے کے نعرہ بازوں سے کسی کی بھی ذات کو مردہ باد کہلاوانا ہمارے ہاں قطعی ناممکن نہیں رہا۔ ہماری سیدھی سادھی معصوم قوم اپنے نعروں کے جوش میں یہ بھی بھول جاتی ہے کہ یہ نعرہ بازی کس کے لیے ہوتی ہے، یہ قوم سمجھتی ہے کہ ہمارے ملک میں اب جمہوریت کا راج ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جمہوریت راج نہیں کرتی۔ دوسری بات یہ کہ جمہوریت بذاتِ خود ایک ایسی طوائف ہے جو پیسے اور طاقت والے کے گرد ناچتی پھرتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اُس ناچ کو بے نقاب کرتی ہوئی نظر آرہی ہے مگر دیکھنے والی آنکھ نہیں!
رونادھونا
ہمارے ہاں پچھلے ساٹھ سالوں سے یہ رونا رویا جا رہا ہے کہ انصاف نہیں ملتا! عدالتیں صرف اُن کو پناہ دیتی ہے جنکے پاس پیسے کی دھنک ابھرتی ہے۔ غریبوں کو تو ایف آئی آر تک کٹوانے کی اجازت نہیں تو وہ بیچارے عدالتوں تک کہاں پہنچے گے؟ اگر اِس بات میں ذرا بھی صداقت ہے کہ عدالتیں ساٹھ سالوں سے پیسے والوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں تو یہ کہنا قطعاً غلط نہیں ہو گا کہ پاکستانی عدلیہ بذاتِ خود ایک مافیا ہے جو اپنے پاؤں مضبوط رکھنے کے لیے پیسہ والوں کی سامنے بِکی ہوئی ہے۔ پچھلے ساٹھ سالوں سے کبھی کسی لیڈر کی اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ اِس عدلیہ پر ہاتھ ڈال سکے کیونکہ اِسی عدلیہ کی بدولت لیڈرز ہیں اور لیڈروں کی وجہ سے عدالتیں چل رہی ہیں۔
سید یوسف رضاگیلانی ججز کو بحال کرنے پر سخت مجبور ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں اپنی وزارت قائم رکھنے کے لیے اِس عدالتی مافیا کو پالنا اشد ضروری ہے۔گیلانی صاحب اسی معاشرے کا ایک اہم جُز ہیں جہاں انہیں عدالتوں سے قدم قدم پر کام ہے، چاہے وہ کام اِن کا ذاتی ہے یا کسی دوسرے کا!
مشرف کے جرم
اکبر علی بگتی کا قتل ہمارے کچھ حصوں میں ایک ظلم بن کر سامنے آیا ہے، حالانکہ حقیقت اِسکے بالکل برعکس ہے۔ اکبرعلی بگتی جو کبھی پاکستان کی کسی وزارت پر بھی فائز تھا،مگر اپنے علاقے میں وہ پاکستان کے قانون کو بھی ماننے سے انکار کرتا تھا اور اُس کی اپنی ایک الگ فوج تھی، اپنے ہتھیار، اپنے سپاہی ، اپنے قوانین! کیا کوئی انسان ایک ملک کے قانون سے بڑھ کر ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
میں ۱۹۹۹ میں اور پھر ۲۰۰۱ میں مشرف کی قائدانہ صلاحیتوں کا زبردست حامی تھا۔مگر میں کسی طور مشرف کا حمایتی نہیں ہوں۔ میں اُس جنرل کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں جس نے کبھی کارگل کو فتح کیا اور کبھی پاکستان کو نواز شریف جیسے دوٹکے کے وزیر سے آزاد کروایا،کبھی واجپائی کو سیاست کے میدان میں شکستِ فاش دی، کبھی کرپٹ عدلیہ پر ہاتھ ڈالا اور کہیں اکبرعلی بگتی جیسے وطن دشمن کا صفایا کیا۔
مشرف پر ہماری عوام کا یہ عتاب نازل ہوتا ہے کہ وہ امریکہ دوست ہے اور امریکہ کے ہاتھوں ملک کو بیچ دیا ہے۔امریکہ کے کہنے پر اور اسلام کے خلاف کام کررہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام پرویز مشرف کو گالیاں دیتی ہے۔
سچائی
سب سے پہلی بات تو کوئی مجھے یہ سمجھائے کہ کیا پاکستان میں ایسا کوئی لیڈر ہے جو وزرات کے عہدے پر ہو اور وہ نہ کرے جو اُسے امریکہ کہے؟ کیا سیدیوسف رضا گیلانی امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت رکھتا ہے؟ یہ بات کسی سی کیا ڈھکی ہوئی ہے کہ بے نظیر بھٹو کو الیکشن سے پہلے امریکہ سے اشیرباد حاصل تھی ۔
دوسری بات یہ کہ اگر مشرف امریکہ کا اتنا ہے غلام ہے جتنا عوام سمجھتی ہے کہ وہ ہے تو امریکہ کیونکر چاہے گا کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹ جائے؟ وہ بینظیر کواشیرباد کیوں دیتا؟ چلیں مان لیتے ہیں کہ مشرف غلام ہے، مگر وہ کم سے کم پاکستان کی ایٹمی طاقت کو امریکہ کے سامنے نہیں بیچتا۔ اور امریکہ کی نظر میں صرف ایک بات ہے، پاکستان کا ایٹمی پلانٹ! اِس پر مشرف کسی طور امریکہ کی نظر نہیں پڑنے دیتا۔
اتحاد
ہم لوگ اِس بات پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی میں ’اتحاد‘ ہوا ہے اور دونوں نے ملکر ایک ’مضبوط‘ جمہوریت کی بنیاد رکھی ہے۔کیا مضحکہ خیز بات ہے!
دو پارٹیاں جن کا منشور، جن کی سیاسی سوچ، جن کی تاریخ ہی ایک دوسرے سے جدا ہو، وہ ایک مضبوط سیاسی نظام کا اجرا کیسے کر سکتی ہیں؟؟؟ کبھی کبار اپنا اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے دو دشمن ایک تیسرے دشمن کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں یہی کچھ ہواہے۔ اور جس ’اتحاد‘ کی بنیاد مفادپرستیوں پر ہو وہ کبھی پائیدار نہیں رہ سکتا!
عدلیہ کی بحالی جمہوریت کی بنیاد نہیں، بلکہ یہ اُسی کرپٹ سیاسی نظام کو تقویت پہنچانے کی سعی ہے جو سالہاسال سے ہمارے ملک میں رائج ہے اورابھی رہے گا، کیونکہ یوسف رضا گیلانی ازخود کچھ نہیں کرسکتاکیونکہ اُس کی پارٹی کی لیڈرشپ ایک ایسے انسان کی ہاتھوں میں ہے جو ایک مدت سے کرپٹ سرمایہ دار مشہور ہے۔ ہماری عقل کیوں حقائق کو ماننے سے انکار کرتی ہے؟انسانی زندگی کی تاریخ اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ ہم کیسے پی پی پی اور نوازشریف لیگ کی باتوں کو عوام کے حق میں بہتر جانیں؟
جمہوریت
جمہوریت کی بحالی ایک چونچلا ہے کیونکہ اوّل تو جمہوریت کا کہیں وجود نہیں، دوسرا ہماری عوام پھل پھول دیکھنے کی عادی ہے انہیں اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اِن پھولوں کے حسن کے پسِ پردہ پاکستان کو اِن نام نہاد جمہوری لٹوؤں کے ہاتھوں کیا کیا نقصان اٹھانے کو مل رہا ہے۔میرا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کرپشن کی ماں ہے جہاں سربراہوں کو ایک دوسروں کو خوش رکھنے کے لیے جگہ جگہ “compromise”کرنا پڑتا ہے۔ہماری یہ انتہائی بدنصیبی ہے کہ ایک بار پھر ملک کو سرمایہ دار طبقے نے اپنے نرخے میں لے لیا ہے!
حالات بدل نہیں سکتے! یہ الفاظ میں نے ایک ایسے ہی ایک مضمون میں کوئی تین چار سال پہلے لکھے تھے۔ ہماری کشتی آج بھی وہی کی وہی کھڑی ہے، خوشی ہے تو صرف اتنی کہ ابھی تک ڈوبی نہیں ورنہ ناخدا تو جب جب بدلا ہے کسی قذاق سے کم نہیں رہا!
اپنی دعاؤں میں پاکستان کی سلامتی کو شامل رکھیں۔
مسعودؔ – ۱۷ اپریل ۲۰۰۸
Meri Tehreer – Political: Jamhooriyat Zindahbaad!
Add Comment