Khud Kalaami
خود کلامی: “اقبال اگر پاکستان میں آ جائیں؟”
’’مسعود کبھی تم نے سوچا کہ آج سے ایک سو سال پہلے کی زندگی کیسی تھی ؟ نہیں معلوم نا؟
ہاں شاید ہم کتابوں سے پڑھ سکتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان کے حالات کیا تھے۔ Khud Kalaami
مفکرِ اسلام حضرت ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کی ایک نظم ہے: مارچ ۱۹۰۳، جس میں حضرت لکھتے ہیں:
اِن نقش بندیوں سے ہم یہ قیاس کرسکتے ہیں! کہ اُس وقت بھی بے حیائی بڑھ رہی تھی۔! خیر اِسی طرح کی ایک ابتری خطے کی سیاسی صورتحال میں بھی تھی۔ Khud Kalaami Khud Kalaami Khud Kalaami Khud Kalaami
برِصغیر پر انگریزوں کی حکومت، اور ہندوؤں کی ان سے گٹھ جوڑ اور مسلمانوں کی سیاسی حالت میں بڑھتی ہوئی خلفشاری!حالات اچھے نہیں تھے۔! خیر اُس دور نے وہ لیڈر پیدا کیے! جنہوں نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا،! ایک پرچم تلے جمع ہوکر ایک ہی منزل کی جانب رواں دواں ہونے لگے۔
جن کے نام سرِ فہرست ہیں ان میں خود علامہ اقبالؒ ایک ہیں۔! جنہوں نے مسلمانوں کے دکھ کو اپنے دل سے محسوس کیا اور پھر اُس درد کو الفاظ کے جادو میں پرکررکھ دیا! اور اُس جادو کا اثر یہ ہوا کہ ایک بھٹکی ہوئی قوم کو اُس کی منزل ملی۔
قدرت کوپتہ نہیں کیا منظور تھا!، اپنی منزل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے سے پہلے ہی اقبال دنیا سے رخصت ہوئے! اور حضرت قائد بھی منزل حاصل کرنے کے فوری بعد چل بسے۔
منزل بھی مل گئی ، ریاست بھی تشکیل پا گئی اور حکومت بھی قائم ہوگئی۔
مگر بعد میں اِس ملک میں کیا کچھ ہوا یہ سب ہمارے سامنے ہے۔! حکومتوں کے نااہلیوں اور حکومتوں کے چمچوں کے خود غرضیوں، پیسے والوں کی حرص اور مفادپرستوں کی خوشامدوں، ذخیرہ سوزوں کی طمع اور لٹیروں کی لالچ ….
کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں ہم پاکستانیوں نے اقبال کے خواب کو تہس نہس نہ کیا ہو! بنگال ٹوٹا، اندورنی حالات میں خلفشاری اور نجانے کیا کیاناسورپیدا کیے! دن بدن حالات ابتر ہوئے ، معیشت روزبروز زوال پذیر ہوئی ، ملک میں نفسانفسی عروج پاتی گئی یہاں تک کہ ایسے ایسے حرامخور ملکی قسمت کے مالک بن بیٹھے جنہوں نے اپنی اپنی اولادوں کا مستبقل روشن کرنے کے لیے عوام کے بچوں کا مستقبل تاریک کیا! دولت سب کی رام بنی اور یہ عوام دولت کی پجاری ! کسی کو حلال و حرام کی ہوش نہ رہی اور پیسہ پیسہ اور پیسہ دین ایمان بنتا گیا!
عورت کو تذلیل کیا گیا ، رشتے داریاں دن بدن رسوا ہوتی گئیں۔۔۔ بے حیائی عروج پاتی گئی یہاں تک کہ قدرتی آفات بھی ہماری عقل کو جھنجھوڑنے کے ناکافی تھیں۔۔
سچی اور کھری باتیں کرنے والے قابلِ عتاب بنتے چلے گئے اور جھوٹے اور گنوار سیاہ و سپید کے مالک بنتے چلے گئے۔ کہیں بھی سچائی کو پروان چڑھتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔۔ سیاست غلاظت کی بدترین بساط بن گئی ، سبزپاسپورٹ دنیا بھر میں ذلت کا نشان بنتا گیا! کھیل کی دنیا کی حالت اسقدر ابتر ہو گئی کہ ملک کے سپراسٹارز جو کھیلوں کے میدان میں اس ملک کی نمائندگی کرتے تھے وہ اپنے ہی ملک کی شکست پر سٹہ بازیاں کرنے لگے۔۔۔ یہان تک کہ خود اقبال کی تعلیمات، انکے اشعار کو اس بیدردی سے پاؤں تلے روندا گیا کہ انکے اشعار کی حالت بگاڑ دی گئی ، بیہودہ، بکواس اور وزن سے گرے ہوئے گھر بنائے ہوئے اشعار اقبال کے نام تھونپے گئے۔۔۔ اقبال ڈے کے نام پر تقریبیں ہوتی رہیں مگر کھانے پینے کے بعد اقبال کو بھلا دیا جاتا رہا۔۔۔
وہ ریاست جو اسلام کے نام پر تشکیل پائی وہ حیوانیت کی بدترین مثال بنتی چلی گئی۔۔۔
کبھی میں سوچتا ہوں! کہ اگر حضرت علامہ محمد اقبالؒ موجودہ پاکستان میں آجائیں تو وہ کیا سوچیں گے؟؟
میری تو پہلی سوچ یہ ہے کہ وہ پہلی ہی فرصت میں خودکشی کر لیتے!‘‘Meri Tehreer – Khud Kalami: “Iqbal Agar Pakistan Mein Aa Jaein”
Add Comment