بشیربدر – مجموعۂ کلام: آہٹ
وہ تھکا ہوا میری بانہوں میں ڈرا سو گیا تھا تو کیا ہوا
ابھی میں نے دیکھا ہے چاند بھی کسی شاخ گل پہ جھکا ہوا
میرے ساتھ ساتھ سدا رہا وہ مری نظر سےچھپا ہوا
یہ عجیب ہجر و وصال ہے، نہ کبھی ملا، نہ جدا ہوا
کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا
وہ غزل کا لہجہ نیا نیا، نہ کہا ہوا، نہ سنا ہوا
جسے لے گئی ہے ابھی ہوا، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا، کہیں آنسوؤں سے لکھا ہوا
کئی میل ریت کو کاٹ کر کوئی موج پھول کھلا گئی
کوئی پیڑ پیاس سے مر رہا ہے ندی کے پاس کھڑا ہوا
مجھے حادثوں نے سجا سجا کے بہت حسین بنا دیا
مرا دل بھی جیسے دلہن کا ہاتھ ہو مہندیوں سے رچا ہوا
وہی شہر ہے وہی راستے، وہی گھر ہے اور وہی لان بھی
مگر اس دریچے سے پوچھنا، وہ درخت انار کا کیا ہوا
مرے ساتھ جگنو ہے اور جگنو کی اس سفر میں بساط کیا
یہ چراغ کوئی چراغ ہے نہ چلا ہوا نہ بجھا ہوا
وہی خط کہ جس پہ جگہ جگہ دو مہکتے ہونٹوں کے چاند تھے
کسی بھولی بسری سی طاق پر تہہ گرد ہو گا دبا ہوا
Add Comment