بشیربدر – مجموعۂ کلام: آہٹ
اداس آسماں ہے، دل مرا کتنا اکیلا ہے
پرندہ شام کے پل پر بہت خاموش بیٹھا ہے
میں جب سو جاؤں ان پلکوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دینا
یقیں آ جائے گا، پلکوں تلے بھی دل دھڑکتا ہے
تمہارے شہر کے سارے دیئے تو سو گئے کب کے
ہوا سے پوچھنا، دہلیز پہ یہ کون جلتا ہے
اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے
کبھی میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے نہیں الجھا
مجھے معلوم ہے قسمت کا لکھا بھی بدلتا ہے
پھر اس کے بعد تنہائی پرکھتی ہے مسافر کو
جہاں تک روشنی ہے اپنا سایہ ساتھ دیتا ہے
سمندر پار کر کے جب میں آیا دیکھتا کیا ہوں
ہمارے وہ گھروں کے بیچ سناٹوں کا دریا ہے
مکاں سے کیا مجھے لینا، مکاں تم کو مبارک ہو
مگر یہ گھاس والا ریشمی قالین میرا ہے
Add Comment