تنہا تنہا

ایبٹ آباد

Ahmed Faraz

ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہر سبزہ وگل
جہاں گھٹائیں سرِ رہگزار جُھومتی ہیں
جہاں ستارے اُترتے ہیں جگنوؤں کی طرح
جہاں پہاڑوں کو قوسیں فلک کو چُومتی ہیں
تمام رات جہاں چاندنی کی خوشبوئیں
چناروسرو کی پرچھائیوں میں گھومتی ہیں

ابھی تلک ہیں نظرے کےنگارخانے میں
وہ برک کُل سے تراشے ہوئے بہشت سے جسم
وہ بولتے ہوئے افسانے الف لیلیٰ کے
وہ رنگ ونور کے پیکر دہ زندگی کے طلسم
اور ایسی کتنی ہی رعنائیاں کہ جن کےلیے
خیال وفکر کی دنیا میں کوئی نام نہ اسم

ابھی تلک ہیں تصور میں وہ درودیوار
بسیط دامنِ کہسار میں چناروں تلے
جہاں کسی کی جواں زلف بارہا بکھری
جہاں دھڑکتے ہوئے دل محبتوں میں ڈھلے
عجیب تھی وہ جھرو کوں کی نیم تاریکی
جہاں نظر سے نظر جب ملی چراغ جلے

میں لوٹ آیا ہوں اُس شہر سبزہ وگُل سے
مگر حیات اُنھیں ساعتوں پہ مرتی ہے
مجھے یقین ہے گھنےبادلوں کے سائے میں
وہ زلف اب بھی مری یاد میں بکھرتی ہے
چراغ بُجھ بھی چکے ہیں مگر پس چلمن
وہ آنکھ اب بھی مرا انتظار کرتی ہے

احمدفراز – تنہا تنہا


urdubazm

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network

FREE
VIEW