Siyasi Qaidi
پچھلے کم و بیش چالیس سالوں سے وطنِ عزیز میں جو سیاسی نظام رائج ہے اس کے تحت جب بھی کوئی بھی کرپٹ سیاستدان اور خاص کر نون لیگ اور پی پی پی کے کرپٹ سیاستدان قانون کے شکنجے میں آتے ہیں اور جیلیں جھیلنی پڑتی ہیں تو وہ اپنے پیچھے اپنے پالتوؤں کو یہ ٹاسک دے جاتے ہیں کہ انکی گرفتاری کو اسقدر مشکوک بنا دیں کہ وہ واقعی ہی میں مشکوک بن جائے۔
اور پالتو بھی اسے حجِ اکبر سمجھ کر اسقدر اسکی تشہیر کرتے ہیں کہ ان کرپٹ سیاستدانوں کی گرفتاری سیاسی قیدی لگنے لگتی ہیں!
اسکی زندہ جاوید مثال حالیہ حکومت کے دوران شریفیوں اور زرداریوں کی گرفتاریوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت سے پہلے اس ملک میں فرشتوں کی حکومت تھی اور اب وہ فرشتے سیاسی انتقام کے تحت زندان میں ڈال دئیے گئے ہیں!
بہرحال یہ تو وہ سیاسی قیدی ہیں جنہیں کرپٹ پارٹیاں سیاسی قیدی کہتی ہیں۔ مگر میرے نزدیک سیاسی قیدی کچھ اور ہے!
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے لیکر 2018 تک بنیادی طور پر پاکستان کی سیاست کی بساط پر صرف دو جماعتیں ہی برسرِ پیکار رہی ہیں: پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن۔
پی پی پی کی بنیاد 1967 میں اس وقت پڑی جب جناب ذوالفقارعلی بھٹو جو کچھ عرصے سے عوامی پارٹی میں شمولیت کے لیے پر تول رہے تھے ، مگر جنہیں عوامی لیگ میں شامل نہ کیا گیا، اس کے بعد لاہور میں پڑی۔ 1977 میں ضیاالحق کے جعلساز انقلاب کے بعد التوا میں پڑ گئی اور پھر دوبارہ 12 سال کی استبدادی حکومت کے بعد بحال ہوئی۔ جبکہ نوازشریف جو اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھا اور 1989 کے الیکش میں ناکامی کے بعد مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھی۔
یہی سے پاکستانی سیاست کا ایک ایسا بھیانک دور شروع ہوتا ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں نے اپنا اپنا ووٹ بنک بنانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنا شروع کر دیں۔ انسانوں کے سروں کی قیمتیں لگیں، ضمیرے خریدے گئے، عیاشیوں کے عوض وفاداریاں خریدی گئیں، پیسے کا بے تحاشہ استعمال شروع ہوا، قسموں پر پارٹیاں نہ بدلنے کے وعدے لیے گئے، غیرملکی اور خصوصاً عرب مالکوں کو پیسہ لٹانے کے لیے خوش رکھنے کے لیے عورتیں استعمال ہوئیں!
ان دونوں جماعتوں کی 1989 سے لیکر 2018 تک ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملوں، سڑکوں پر گھسیٹنے سے لیکر کرپشن کے الزامات، غبن کے الزامات، جھوٹ، فراڈ، گالی گلوچ سے لیکر عورتوں کی ننگی تصاویر کی پوسٹنگ تک سے لیکر پارلیمنٹ میں عورتوں کو ٹریکٹر اور ٹرالیاں کہنے تک کوئی ایسا غیراخلاقی، بدکردار کا الزامات جو ان دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر نہ لگایا ہو۔ مگر اسکے باوجود جب جب الیکش ہوئے کبھی یہ فتح یاب ہوتے کبھی وہ۔ اس دوران کوئی 9 سال فوج نے موج کی! مگر فوج کی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہوتی!
کوئی بھی مجھ جیسا جو مغرب کی سیاست کو جانتا ہے، وہ یہ سوچ کر اپنے سر کے بال اکھیڑ لیتا ہے کہ یہی عوام کہتی ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے اس ملک تباہ و برباد کر دیا ہے مگر اسکے باوجود یہ سیاسی جماعتیں کیسے اتنے ووٹ لے جاتی ہیں؟؟ اگر یہی جماعتیں یورپ میں ہوتی تو کب کی صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہوتیں!
مگردرحقیقت یہی ہے وہ سیاسی قید جس میں ان سیاسی جماعتوں اس ملک کی غیرتعلیم یافتہ قوم کو جکڑ رکھا ہے۔ 1967 سے لیکر اب تک اس قوم کو روٹی کپڑا اور مکان تک محدود رکھا گیا ہے اور خود انکی اولادیں اسی قوم کے پیسے پر یورپ میں تعلیم حاصل کر کے انہیں پر مسلط کر دی جاتی ہے اور یہ قوم چار پیسوں کی خاطر اپنا ووٹ انکے آگے بیچتی رہی ہے۔ تعلیم کا ایسا معیار ہے پرھا لکھا بندہ جہالت کی باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ جو کچھ شعور رکھتا ہے وہ سفید پوشی کی زندگی کو پسند کرتا ہے۔ باقی رہ گئے وہ جو خود کو صحافی کہتے ہیں تو وہ انہیں جماعتوں کے لیے کمپئین کرتے نظر آتے ہیں گویا وہ بھی اس قوم کی اس سیاسی قید میں جکڑ کر رکھنا چاہتے ہیں!
یہ دونوں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مستقبل کے کا پلان گاڈفادرز فلمز کی طرح بہت پہلے کر لیتے ہیں۔ ابھی زرداری نے اس قوم کو اپنا سیاسی مقلد بنائے رکھا تھا کہ بلاول بھٹو بھی بے نامی اکاؤنٹوں پر علم حاصل کر کے اس قوم پر مسلط ہو چکاتھا کہ ساتھ ہی بلاول کی بہن بختاور کی شادی چودھریوں میں کر کے ایک بیٹا بھی پیدا کر لیا اور اسکی رونمائی بھی کرادی کے اے جاھل قوم یہ تمہارا آنے والا سیاسی مالک ہے!
یہی کھیل پنجاب میں نون لیگ کھیلتی چلی آئی ہے کہ جہاں جہاں سیاسی مفاد ہوا وہاں رشتے کر لیے ، لے لیے، یا عورتوں کو نکاحوں سے نکال کر ان سے بیاہ کر لیا۔ خفیہ شادیاں رچا کر صحافت کو داغ دار کیا!
اور یہ قوم نسل در نسل، صدی در صدی، خاندان در خاندان انکی سیاسی قید میں رہے گی! اس قوم کے پاس سیاسی بصارت رتی برابر نہیں! انہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی گاڈفادرز نے روٹی، کپڑا اور مکان تک محدود رکھا ہے تاکہ یہ کبھی انکے سامنے سر نہ اٹھا سکیں! ان کی نسلیں ان سیاسی گاڈفادرز کی غلامی میں گزر جائیں گی مگر یہ انکے سامنے سر نہیں اٹھائیں گے۔
یہ ہے اصل سیاسی قید جس میں قوم جکڑی ہوئی ہے!
بقلم: مسعود
Add Comment