Abhi Ya Kabhi Nahin
سعودی ولی عہد کے دورۂ پاکستان سے آج پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ98-1997 میں جب ابھی انٹرنیٹ اپنی بچگانہ عمر میں تھا۔ آئی ٹی کا بوم ابھی افق پر منڈلا ہی رھا تھا۔ مغربی کمپنیاں سستی مگر میعاری منڈیوں کی تلاش میں ایک ایک کر کے نکلنا شروع کیا تھا۔ ڈیٹابیس کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام اوراکل Oracle کا سی ای او پاکستان آیا! اسکا پاکستان کا دورہ اس نیت سے تھا کہ پاکستان میں اوراکل کی ریسرچ لبرٹی قائم کی جائے۔
مگر پاکستان میں اسوقت ناسوروں کی ایسی حکومت تھی جو پچھلے دس سال سے ایک دوسرے پر توہ لعنت کر کے ، ایک دوسرے پر تھوک تھاک کر، ایک دوسرے کو الف للا ننگا کر کے حکومت کرتے تھے، اور پھر مشرف آ گیا۔ Abhi Ya Kabhi Nahin
اوراکل کے سی ای او نے پاکستان کو الوداع کہا اور ہندوستان جا کر دنیا کی بہت بڑی ریسرچ کمپنیوں میں سے ایک بنائی۔ اسکے بعد آئی ٹی کا ایسا بوم آیا کہ دنیا کی 10 میں سے 9 بڑی کمپنیوں نے ہندوستان کا رخ کیا اور ہندوستانی معاشی حالت کو وہ تقویت پہنچائی جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ Abhi Ya Kabhi Nahin
اوراکل کے سی ای او کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں مگر اس ملک کے سیاسی حالات اور عدم استحکام ہمیں ایسا کرنے سے روک رہا ہے۔
پیچھا رہ گیا پاکستان! اپنی سیاسی ڈھانچے اور سیاستدانوں کی ناسورانہ ذہنیت نے پاکستان کو کبھی اس عروج پر پہنچنے ہی نہیں دیا۔ پھر انہی سیاستدانوں نے اپنے ضمیروں کو بیچ کر پاکستان کو مزید نقصان پہنچایا اور اس ملک کے نوجوانوں میں جو قابلیت، صلاحیت اور ہنر و فکر تھا وہ کبھی بروئے کار لایا ہی نہ جا سکا۔ جلتی پر تیل یہ کہ ان میں سے جو قابل تھے انہیں مغربی ممالک ہی اپنی خاص اسکیموں کے تحت لے اڑتے اور باقی جو رہ جاتا وہ کنڈم مال! Abhi Ya Kabhi Nahin Abhi Ya Kabhi Nahin
صد افسوس!
آج ایکبار پھر پاکستان کو موقع مل رہا ہے۔ پاکستان کے مستقبل تابناک ہے مگر اس کو ایک زبردست مضبوط حکمران کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ساتھ عوام کے اندر یہ شعور بیدار کرنے کے ضرورت ہے کہ “ناؤ اور نیور” – ابھی یا کبھی نہیں! Abhi Ya Kabhi Nahin Abhi Ya Kabhi Nahin
اے قوم تمہارے پاس موقع ہے، تمہاری صلاحیتوں سے دنیا مستفیض ہونا چاہتی ہے، کیونکہ تمہارے اندر وہ قابلیت ہے جو دنیا کو چاہیے۔ اے قوم اپنے اندر نفرت، کینہ اور ہوس کی آگ کو بجھا کر اپنے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو ظاہر ابھارو! اللہ تعالیٰ نے تمہیں عمران خان کی صورت میں ایک ایسا لیڈر دیا ہے جس کے دل میں تمہارے دکھ ہے درد ہے۔ اسکی رگ رگ تمہارے غم سے تڑپتی ہے۔ وہ لیڈر جو پردیسیوں کے حالات پر آنسو بہائے وہ کسی صورت مکار نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنا سکھ چین اس وقت برباد کیا ہے جب وہ چاھتا تو امریکہ، کینیڈا، برطانیہ ، آسٹریلیا جیسے ممالک میں امن و شانتی کی زندگی گزار رہا ہوتا۔
پاکستان کو اس تمہارے اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ میں ایک پردیسی ہونے کے ناطے سے کہ رہا ہوں کہ اپنے ملک سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہوتی ، اپنے ملک کی قدر کرو اور اپنے لیڈر عمران خان کا ہاتھ تھام لو۔ میرا ایمان ہے کہ اگر 98-1997 میں عمران خان پاکستان کا قائد ہوتا تو کیا اوراکل کیا مائکروسافٹ اور کیا ایس اے پی تمام کی تمام ریسرچ لبرٹیاں پاکستان میں ہوتیں۔ آج پاکستان کی آئی ٹی صنعت بوم پر ہوتی۔ عمران خان کے 5 سال پچھلے 35 سالوں پر بھاری ہونگے اسکو کام کرنے کا موقع اور وقت دو!
بقلم: مسعودؔ
Add Comment