Sports

Humaarey Super Stars!

Sports: Humaarey Super Stars!
Sports: Humaarey Super Stars!
معیار

اگر فردِواحدکا معیاردیکھا جائے توپاکستانی کرکٹ ٹیم میں دنیا کے بہترین کھلاڑی موجود ہیں۔مگر جب یہ گیارہ کھلاڑی مل کر ایک ٹیم بنتی ہے تو بلا شبہ پاکستانی ٹیم دنیا کی سب سے گھٹیا، بیہودہ اور پرلے درجے کی للّو ٹیم ثابت ہوتی ہے۔ Humaarey Super Stars

کھیل کے میدان میں ان کی ناقص پرفارمنس، قوم کے لیے انتہائی شرمندگی کی بات ہے۔کبھی میں سوچتا ہوں جیسی پرفارمنس پاکستانی سپوتوں کی کھیل کے میدان میں ہے! اگر ایسی پرفارمنس دیناکوئی جرم ہوتا تو ہمارے اِن جیالوں کو ہرروزکوڑے لگائے جاتے۔مگر افسوس ہم ان ناکام جیالوں کو قومی ہیروزمانتے ہیں۔

پاکستانی ٹیم کی نفسیاتی بیماری یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت سارے ہیروز ہیں۔بلکہ کوئی بھی ٹیم سلیکٹ کی جائے، اُس میں گیارہ کے گیارہ ہیروز ہیں، بلکہ ۱۲واں بندہ بھی ہیرو ہے۔میدان میں موجود ہوں یا باہر بیٹھے ہوں، اِن کی اداؤں سے یہی لگتا ہے گویاکشمیر کو فتح انہوں نے ہی کیا ہے۔! Humaarey Super Stars

مسئلہ

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کھلاڑی کھیل کے میدان میں خودغرض سیاستدان ہیں،جو اپنا مقصد حاصل کرنے کی خاطراپنے ملک کی انا کو بھی داؤ پر لگانے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ تسکین پانے کے کی خاطریہ جیالے اپنے ہی ملک کی ہار پر سٹہ کھیلنے پر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔کھیلوں کی دنیا میں اِس سے بڑا جرم اورکوئی نہیں ہوتا،مگر ہمارے مردہ ضمیر سفیر یہ کام بھی سر اٹھا کر کرتے ہیں۔ اِس پر غضب یہ کہ ہماری قوم انہیں پھر بھی ہیروز بناتی ہے،جو حقیقت میں زیروز ہیں۔

اسی گندی سیاست کی وجہ سے ماضی میں بھی بہت سے اچھے اور حقیقی پروفیشنل کھلاڑیوں کامستقبل یا تو تباہ ہواہے یا پھر وقت سے پہلے ہی ختم ہوگیاہے۔جاویدمیانداد اس سیاست کا شکار ہونے والے پہلے صحیح معنوں میں سپراسٹار تھے۔جاوید کے بعد جو سب سے بہترین بلے باز پاکستانی ٹیم کو ملا، اور جس کو اس سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا وہ تھا باسط علی۔ باسط علی ایک انتہائی اعلیٰ معیار کا بلے باز تھا جو بیٹنگ میں جاویدمیانداد کی کمی کو بخوبی پورا کرسکتا تھا! مگر باسط علی کو اندر کی سیاست کی نظر کر دیا گیا اور اسی طرح قاسم عم کے نام سے ایک بیٹسمن تھا جسکو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا!

عامرسہیل ایک عمدہ اوپنر اس سیاست کی نظر ہوگیا۔موجودہ ٹیم میں دیکھا جائے تو ایک سوال ابھرتاہے: کیا اب یوسف یوحنا بھی اسی سیاست کی بھینٹ چڑھنے لگا ہے؟؟موجودہ ٹیم میں کوئی بھی بلے باز ایسا نہیں جس پر اعتمادکیا جاسکے، یوحنا ایک reliableکھلاڑی ہے۔Humaarey Super Stars

سپراسٹار

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اچھے کھلاڑیوں کی کمی نہیں،اس کے باوجود اس قدر للّو کھیل کھیلنے والے ٹیم میں شامل کیوں ہیں؟؟جس قدر لاپروائی کا کھیل یہ جیالے پیش کرتے ہیں انہیں دیکھ کر سخت شرمندگی ہوتی ہے۔یہ لوگ اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی بجائے اپنے جذبات سے کھیلتے ہیں، اور شاٹس کا انتخاب کرتے وقت ان کے ذہن میں ہیرواِزم گردش کرتی نظر آتی ہے۔ یوں لگتا ہے یہ بوگس سپراسٹارز بیٹنگ کرتے وقت اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں میں جھولتا ہوا دیکھتے ہیں۔اِس قدر بیہودہ شارٹس تو امیچر amateursکھلاڑی بھی نہیں کھیلتے۔Humaarey Super Stars Humaarey Super Stars Humaarey Super Stars

کبھی میں سوچتاہوں ہماری ٹیم کینیا کی ٹیم سے بہتر نہیں۔ اگر ورلڈکپ میں دوگروپس بنائے جائیں، اور ان دونوں گروپس میں پروموشن/ریلیگیشن ہو تو ہماری ٹیم ایک ’لفٹ ٹیم‘ ثابت ہو، جو کبھی سیکنڈ گریڈ سے پروموٹ کرکے فرسٹ گریڈ تک پہنچے مگر اگلے ہی سال ڈیگریڈ ہو کر دوبارہ سیکنڈگریڈ میں پہنچ جائے۔اِس قدر گھٹیا معیار ہے ہماری ٹیم کا۔

اور یہ معیار اُس وقت تک ٹھیک نہیں ہوگا جب تک یہ جیالے اپناامیج درست نہیں کرتے۔اور آف دی فیلڈ اپنے قرتوں کا احتساب کرکے آن دی فیلڈ اپنی کارکردگی پر توجہ نہیں دیتے!

 
مسعودؔ  –  کوپن ہیگن 5 ستمبر 2002

Shab-o-roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW