Politics

آسیہ مسیح  –  عدالتِ عظمی کا فیصلہ

آسیہ مسیح  -  عدالتِ عظمی کا فیصلہ
آسیہ مسیح  –  عدالتِ عظمی کا فیصلہ

پس منظر

اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ خود نہیں پڑھا، جو مجھے سمجھ آئی ہے! میں اسکو یہاں بیان کررہا ہوں تاکہ میری طرح کے عام لوگ اصلیت جان سکیں!

بات یہاں سے شروع ہوتی ہے! کہ پنجاب کے ایک گاؤں میں فالسے کے ایک کھیت میں کچھ خواتین فالسے اکھٹے کرنے کا کام کر رہی ہیں،! کہنے کیمطابق اس کھیت میں کوئی 20 سے 35 عورتیں کام کررہی تھیں۔ایک عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی عورت پانی بھر کر لائی! اور ان خواتین کو پانی پینے کی پیشکش کی، جس کو 2 عورتوں نے یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ تم عیسائی ہو،! ہم تمہارے ہاتھ کا پانی نہیں پیئیں گی!

یہاں پر ایک عام پاکستان ہونے کے ناطے سے اس بات کو تسلیم کرتا ہوں اور یقیناً بہت سارے دوسرے لوگ بھی اسکی تصدیق کریں گے ہم پاکستانی دوسری اقلیتوں اور خاص کر عیسائیوں اور قادیانی سے بدترین سلوک کرتے ہیں، عیسائیوں کو ‘چوڑھا’ ‘گنداٹھانے والے’ سمجھتے ہیں۔۔۔

تلخ کلامی

یہ دو جوان عورتیں تھیں جو نیم خواندہ یعنی کم پڑھی لکھی تھیں،! ان کی عیسائی عورت آسیہ کیساتھ اس امر پر جھگڑا ہو گیا اور تلخ کلامی ہو گئی۔یہ دونوں عورتیں بجز جوانی کے ابھی تک غالبا ًقرآن بھی نہیں پڑھی ہوئیں! کیونکہ عدالتی جرح سےثابت ہوتا ہے! کہ وہ ابھی ایک مولوی کی بیوی سے قرآن پڑھ رہی تھیں۔ان دونوں جوان عورتوں نے مولوی کی بیوی کو جا کر بتایا کہ آسیہ نے توھینِ رسالت کی ہے!بیوی نے مولوی کو بتایا۔ مولوی جو اس کھیت سے کئی ایکڑ دور تھا!، یہ اطلاع پاکر اپنے تئیں تفیش کرنی شروع کر دی۔!

جرگہ بلایا گیا اور اس جرگے میں آسیہ نے اعترافِ جرم کر کے معافی مانگ لی!

مولوی نے اپنی مدعیت میں ایف آئی آر کٹوا دی! اور آسیہ کو قید ہو گئی جو بعد میں جب عدالتوں میں آئی تو پھانسی کی صورت لاگو ہو گئی۔!

عدالتی فیصلہ تھا کہ پھانسی اور ایک لاکھ روپے جرمانہ اور اگر جرمانہ ادا نہ کیا تو چھ ماہ مزید جیل کاٹنا ہو گئی۔۔۔۔۔!

یہاں پر ایک عام انسان ہونے کے ناطے سے میرا ایک سوال ہے، اگر پھانسی کی تاریخ یکم جنوری رکھی جائے اور 31 دسمبر تک آسیہ ایک لاکھ روپیہ جمع نہ کروائے تو کیا پھانسی کے سزا چھ ماہ آگے کر دی جائے گی؟ یعنی ایک گستاخِ رسول کو چھ ماہ کی مزید زندگی عطا کر دی جائے گی؟ یا نعش کو چھ ماہ جیل میں رکھا جائے گا؟

سزا کی معطلی

بہرحال عدالتی فیصلہ چیلنج کیا گیا! اور اب آ کر سپریم کورٹ نے اس کو ازسرِ نو پرکھا اور موت کی سزا کا فیصلہ معطل کردیا۔!

سپریم کورٹ نے جن باتوں پر غور کیا،! وہ یہ تھیں کہ فالسے کے کھیت میں ہونے والے جھگڑے (طیش دلانے سے شروع ہوا) سے لیکر عدالتوں میں گواہان کی جرح تک! بہت سارا جھوٹ، تضاد، غیرقانونی تفتیشی کروائیوں سے لیکرکچھ گواہان کے منحرف ہونے تک! کیس انتہائی غیرمستحکم، غیریقینی اور قانون کے تقاضے نہ پورے کرنے تک تھا۔!

کئی مقامات پر خود گواہان کے اپنے بیانات ہی میں تضاد تھا۔! دورانِ جرح یہ بھی سامنے آیا کہ جیسے کھیت کے مالک کو بعد میں تیار کیا گیا تھا کہ وہ گواھی دے۔لہذا جھوٹی گواہیاں بھی دلوائی گئیں، لہذا ایسے کیس میں کبھی بھی کسی بھی مجرم کو سزا نہیں دی جاسکتی!

ملا اور ملاؤں کا اودھم

اب صورتحال یہ ہے کہ! عدالتی فیصلے کے بعد ایک خاص طبقے کے مولویوں نے جو اودھم مچایا وہ ناقابلِ یقین ہے!

مولوی خادم حسین کے الفاظ انتہائی غلیظ بدکار اور دھشتگردی پر مبنی ہیں! کہ چیف جسٹس کو قتل کر دو، آرمی چیف کو قتل کر دو وغیرہ۔ !مولوی خادم کی شے پاکر پچھلے چند دن میں سلطنتِ پاکستان میں جو دھشتگردی کا طوفان مچایا گیا ہے! وہ ناقابل تلافی جرم ہے! جو جو تباہی ہوئی وہ مولوی خادم کے کھاتے میں لکھی جائے گی۔مولویوں کی اب یہ ڈیمانڈ ہے کہ فیصلے پر نظرثانی کی جائے! اور نظرثانی صرف اور صرف پھانسی کے صورت میں قبول ہو گی۔!

مولویوں نے یہ ٹھان لی ہے کہ! ہم اس وقت تک نہیں مانیں گے! جب تک یہ کہہ نا دیا جائے کہ توھین ہوئی ہے۔ ہم توھین کرواکر ھی دم لیں اور اسکے بدلے میں پھانسی ہی ہمارے نفس کو تسکین دے گی۔

لہذا!

میں ایک عام پاکستان ہونے کے ناطے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ نظرثانی سے پہلے مولوی خادم حسین، افضل قادری، ظہیرالحسن، فاروق الحسن اور مولوی سراج الدین جیسے لوگوں کو عدالت بلایا جائے اور ان سے تحریری حلف نامہ لیا جائے کہ فالسے کے کھیت میں دونوں نیم خواندہ عورتوں کی سچائی سے لیکر ، مولوی سلام، اسکی بیوی، پنجائیت اور اسمیں موجود لوگوں کی سچائی اور تفتیشی جماعتوں تک سب کے سب نے جو بھی کاروائی کی ہے وہ شریعت کے عین مطابق کی ہے اور یہ سب انکی سچائی اور ایمانداری کی ضمانت اٹھاتے ہیں۔ یہ سارا گروہ اس بات کی سچائی کی گواھی دیتا ہےکہ الزام درست اور سچا تھا اور اگر اس میں رتی برابر بھی جھوٹ ہو تو یہ بروزِ قیامت اسکا بھار یہ مولوی طبقہ اپنے کندھوں پر اٹھائے گا۔
اسکے بعد آسیہ کو بھلے پھانسی دیدی جائے۔

Asia Bibi blashphemy case, asia bibi update 2018, asia maseeh high court decision.

بقلم مسعودؔ

Shab-o-roz

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW