کانٹے
مجبوریوں کا سفر ہے طویل، اس رہگذر میں کانٹے ہیں
پھولوں سے بھرا ہی ہو گا یہ جہاں، پر میری نظر میں کانٹے ہیں
اک بات تو تُو نے بھی آزمائی ہی ہو گی اے دوست
کل تلک جس سفر میں گل تھے آج اسی سفر میں کانٹے ہیں
یہ ہے دستورِ دنیا، یہ حکم ہے اِن ناخداؤں کا
زر والا تو خوش ہے، بیزر کے مقدر میں کانٹے ہیں
آزمانے جاتے ہیں آج خدا کی رحمت کہ کیوں
مقدر کی شکستگی سے میرے ہی گھر میں کانٹے ہیں
تم آنے کا اقرار تو کرو اے صنم کہ ہم!
بنا دیں گے اسے گل و گلزار، جس رہگذر میں کانٹے ہیں
کل جب تو نے بے رخی سے میرے در کو چھوڑا
تو دل یہ سمجھا کہ اب میرے گھر میں کانٹے ہیں
عہدِ وفا چھوڑا، رشتہَ الفت توڑا، اے صنم تو نے
اب خیالوں میں بھی نہ آؤ اے مسعودؔ کہ میری فکر میں کانٹے ہیں
kaantey phool safar dost
81 Comments