پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو
آنے والی کل کا دکھ
مِری نظر میں اُبھر رہا ہے
وہ ایک لمحہ
کہ جب کسی کی حسین زُلفوں کی نرم چھاؤں میں آنکھ مُوندے
گئے دنوں کا خیال کر کے
تم ایک لمحے کو کھو سے جاؤ گے اور شاید
نہ چاہ کر بھی اُداس ہو گے
تو کوئی شیریں نوایہ پُوچھے گی
میری جاں ! تم کو کیا ہُوا ہے؟
یہ کس تصور میں کھو گئے ہو؟
تمھارے ہونٹوں پہ صبح کی اوّلیں کرن کی طرح سے اُبھرے گی مُسکراہٹ
تم اُس کے رُخسار تھپتھپا کے
کہو گے اُس سے
میں ایک لڑکی کو سوچتا تھا
عجیب لڑکی تھی۔۔۔کِتنی پاگل!
تُمھاری ساتھی کی خُوبصورت جبیں پہ کوئی شکن بنے گی
تو تم بڑے پیار سے ہنسو گے
کہو گے اُس سے
ارے وہ لڑکی
وہ میرے جذبات کی حماقت
وہ اس قدر بے وقوف لڑکی
مرے لیے کب کی مر چکی ہے!
پھر اپنی ساتھی کی نرم زُلفوں میں اُنگلیاں پھیرتے ہوئے تم
کہو گے اُس سے
چلو، نئے آنے والی کل میں
ہم اپنے ماضی کو دفن کریں
Add Comment