مجھے تیری یاد کی پرچھائیاں ڈھستی ہیں
سلگتی ہوئی رات کی تنہائیاں ڈھستی ہیں
گزرتی ہے جب بھی گلی سے بارات کوئی
سروں میں گونجتی شہنائیاں ڈھستی ہیں
کوئے جاناں میں سجی ہے محفلِ غزل
کوئے جاناں کی بزم آرئیاں ڈھستی ہیں
بے بنیاد ہیں عدو کی تمام تر کارستانیاں
لغویات ہیں سب ہوائیاں ڈھستی ہیں
دل کے زخم تو بھر ہی جائیں گے لیکن
اب اپنی محبت کی گہرائیاں ڈھستی ہیں
اول اول دل بے سدھ ، بیخود سا رہتا ہے
آخر آخر محبت کی رسوائیاں ڈھستی ہیں
Add Comment