پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو
قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے
مرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے
میرے و میران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ میرے گھر ک در وبام سجانے آئے
اس سے اک بار تو روٹھوں میں اسی مانند
اور مری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے
اسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کچھ بھی نہ بتانے آئے
ضبط کی شہر پناہوں کی، مرے مالک! خیر
غم کا سیلاب اور مجھ کو بہانے آئے
Add Comment