پروین شاکر – مجموعۂ کلام: خوشبو
اعتراف
جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی
ہو گئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
میں نے پھر تیرے تصور کے کسی لمحے میں
تیری تصویر پر لب رکھ دیے آہستہ سے!
جانے کب تک تری تصویر نگاہوں میں رہی
ہو گئی رات ترے عکس کو تکتے تکتے
میں نے پھر تیرے تصور کے کسی لمحے میں
تیری تصویر پر لب رکھ دیے آہستہ سے!
ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!
Add Comment