حضرت ابنِ مسعود سے مسلم شریف میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ: ” اللہ نے مجھ سے پہلے کسی بھی امت میں کوئی نبی نہیں بھیجا جسکے کوئی نہ کوئی حواری نہ ہوں(جیسا کہ حضرت عیسیٰ کے بارہ حواری مشہورہیں) وہ حواری یا اصحابہ اپنے نبی کی سنت کو مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے اور انہی کے احکام کی پیروی کرتے تھے۔ان کے بعد (امت میں) ایسے ناخلف اٹھے جو کہتے وہ نہیں تھے جو وہ کرتے تھے اورکرتے وہ تھے جسکا حکم ہی نہیں ہوا تھا۔وہ خود سے اپنی طرف سے گھڑ لیتے ہیں” Shab-e-Baraat
ہمارے ملک میں نصف شعبان کو شبِ برأت کے نام سے ایک مقدس رات کی عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ایک ایسی رات جس کی نسبت ہمارے ملک کے بڑے بڑے نامور علما اس رات میں خصوصاً عبادات کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایسے علما میں مولانا طارق جمیل سمیت طاہرالقادری اور کوکب نورانی جیسے نام شام ہیں!
اس رات کی نسبت جن احادیث سے روایت کی جاتی ہے انکی تعداد پانچ ہے۔ اور وہ بالخصوص جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ کی مشکاۃ المصابیح، امام ابی بکر کی شعب الایمان سے میں درج ہیں۔یہ احادیث کچھ الفاظ کے رد و بدل کیساتھ اسطرح ہے کہ:
“ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو (بسترپر) نہ پایا، آپ اچانک بقیع (جنت البقیع) تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “کیا تمہیں اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے”۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں نے سمجھا کہ آپ اپنی کسی زوجہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “اللہ نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اور وہ (اس رات) کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے” – ایک اور جگہ اس میں مزید ہے کہ “اللہ ایسے لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے جو جہنم کے مستحق تھے”
اس حدیث کی نسبت خود امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے! اسکا مطلب یہ ہے کہ جن راویوں نے اس حدیث کو بیان کیا ہے انکا آپس میں کوئی رابطہ واقع نہیں ہوا۔ یعنی یحییٰ بن کثیر کی کبھی حضرت عائشہ بھانجے سے ملاقات ثابت نہیں اور نہ ہی پھر یحییٰ بن کثیر کو روایت کرنے والے حجاج کی کبھی یحییٰ بن کثیر سے ملاقات ثابت ہے! امام ترمذی ؒ مزید فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس حدیث کی نسبت اپنے استاد امام بخاریؒ سے پوچھا تو انہوں نے اسے غلط اور ضعیف قرار دیا!
امام بہیقی کی شعب الایمان میں ہے کہ : “اس سال پیدا ہونے والے اور اس سال فوت ہونے والے ہر شخص کا نام اس رات لکھ دیا جاتا ہے۔ اسی رات انکے اعمال اوپرچڑھ جاتے ہیں اور اسی رات انکا رزق نازل کیا جاتا ہے”
یہ حدیث بھی ضعیف ہے! یہ وہ امر ہیں جو شبِ قدر سے وابستہ ہیں جسکو قرآن پاک نے سورۃ القدرمیں لیلۃ القدر اور سورۃ الدخان میں لیلۃ المبارکہ کہا گیا ہے اور جسے سورۃ البقر میں ماہِ رمضان میں موجود فرمایا گیا ہے۔ اس پر نبی پاک ﷺ نے صرف اتنا مزید بیان فرمایا کہ یہ رمضان المبارک کے آخرے عشرے کی طاق راتوں یعنی 21ویں، 23ویں، 25ویں، 27ویں یا 29ویں رات میں تلاش کرنے کو فرمایا۔
یہاں سے ایک بہت اہم بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ اور االلہ کے رسول ﷺ نے عبادت کے لیے کسی بھی دن یا رات کو مختص نہیں کیا بلکہ ہر دن اور ہر رات اسلام میں مقدس ہے اور اس میں کی گئی عبادت اللہ کے حضور مقبول ہیں بشرطیکہ عبادت میں نیت اور خلوص ہو اور کینہ اور بناوٹ نہ ہو۔ ہر دعا اللہ کے حضور پہنچتی ہے چاہے وہ قضائے حاجت ہی کو جاتے وقت کیوں نہ کی جائے! عبادات اور دعاؤں کی قبولیت کا حق صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے!
کسی دن یا رات کو عبادت سے مختص کرنے سے اسلام کا بنیادی اصول ہی خراب ہوجاتا ہے! یہاں تک کہ ہمیں جمعہ کے دن کو بھی عبادات کے لیے مختص کرنے کا حکم نہیں۔ جمعہ کی نماز افضل ہے اور اسکے اہتمام کا زور آبادیوں اور شہروں میں جہاں آذان ہوتی ہے کرنے کو کہا گیا ہے مگر جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانے اور رزق کی تلاش کا حکم صادر کیا ہے یعنی جمعہ کے دن کام کرنے کو منع نہیں کیا گیا جیسے یہودہ اور نصاریٰ نے ہفتہ اور اتوار کو مخصوص کر لیا ہے۔
البتہ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث بیان کی گئی جسکو اسکی تفسیر میں ضعیف قرار دیا گیا جبکہ اسکی نسبت ایک مر کہ قبرستان جا کر اہلِ قبور کے لیے دعائے مغفرت کرنا درست ہے! مگر اس کی نسبت دوسری جو بہت ساری باتیں شامل کی گئی ہیں کہ قبروں پر مٹی ڈالنا، کرائے پر مولوی بلا کر قرآن خوانیاں کرنا، ختم کرانا، کھانے پکانا یہ سب کی سب بدعات ہیں اور انکا نبی پاک ﷺ سے کوئی رابطہ نہیں!
مسلم شریف کی حدیث سے دو باتیں سامنے آتی ہیں: دعائے مغفرت کرنا جائز ہے جبکہ اس رات کو عبادات کا ذریعہ بنا لینا بدعت ہے!
اکثرلوگ مجھ سے الجھتے ہیں کہ کیا ہوا عبادت ہی تو کررہے ہیں اس میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ عبادات کے تمامتر طریقے نبی پاک ﷺ نے ہمیں سکھا دئیے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اگر کوئی کرے گا تو وہ بدعت کے ضمرے میں آئے گا۔ اگر کوئی کہے کہ مجھے دنیا ہیچ لگتی ہے میں اپنی ساری عمرایک بندکمرے میں عبادت میں گزارنا چاہتا ہوں ، یا میں عبادات اور اللہ کی تلاش میں جنگلوں بیابانوں میں نکل جاتاہوں – دونوں غلط اور غیراسلامی ہیں! ایک مسلمان پر دین کے ساتھ ساتھ دنیا سے روابط رکھنا فرض کیا گیا ہے۔ ہم کسی طور دنیا سے رابطہ نہیں توڑ سکتے چاہے وہ عبادت کی کثرت ہی کیوں نہ ہو!
اگر نصف شعبان کی رات کی عبادات کی کوئی فضلیت ہوتی تو اللہ کا رسول ﷺ اپنی زوجات کو عبادات میں مشغول فرماتے۔ آپ ﷺ سے سیکھ کر اصحابِ کرام عبادات کا اہتمام کرتے – مگر ایسا کوئی واقعہ ہمیں تاریخ سے یا احادیث سے نہیں ملتا! اب کوئی ڈھیٹ اور بے شرم خودساختہ عالم اپنے رتبہ کی مجبوری کے باعث اسکو جائز قرار دیتا ہے تو وہ درحقیقت عوام الناس کو بدعات میں دھکیل رہا ہے!
عبادات کی نسبت بدعات کو پھیلانے میں آجکل ہمارا میڈیا ایک قلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ اول تو تہوار غلط اور اوپر سے عورتوں کو اسٹوڈیوز میں بلا کر نعتیں اور قوالیاں – بدعت کی بدترین مثال! اور قیامت خیز بات یہ ہے کہ اکثر نامور علمأ بھی ان محفلوں میں شامل ہوتے ہیں۔ یہاں میڈیا میں جو لنک دیا گیا ہے اس میں مولانا کوکب نوارنی کا بیان سنیے، انتہائی غیراسلامی بیان اور انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ داغا گیابیان!
مگر ہمارے دور کے علمأ چاہتے ہوئے بھی اس بدعت سے باہر نہیں نکل سکتے! کیونکہ اگر وہ کہیں کہ ہاں جی یہ ایک بدعت ہے اور اسکا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں تو پھر سوال اٹھ جاتا ہے کہ اتنا عرصہ آپ کیا کرتے رہے؟ کتنے لوگ آپ سے متاثر ہوئے؟ کس کس کو اب آپ راہِ راست پر لائینگے کہ کون ہے جو اب آپکی بات مانے گا؟
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو عقلِ سلیم سے نوازا ہے! اہل علم پر فرض ہے کہ جہاد کریں اور جہاد کا ایک طریقہ حق گوئی و بیباکی ہے اور لوگوں تک سچا علم پہنچانا ہے! دین کسی بھی عالم یامولوی کی میراث نہیں کہ اسنے کہا اور عوام پر واجب ہوگیا! ہر وہ بات جو قرآن اور حدیث کے خلاف جائے گی وہ بدعت ہوگی اور اسکے خلاف جہاد کرنا ہر اہلِ علم کا فرض ہے! شبِ برأت سے لیکر عیدمیلادالنبی تک ، عرسوں سے لیکر مزاروں پر کنڈے اور دئیے جلاکر منتیں مانگنے تک، پیروفقیروں پر نیازیں اور چڑھاوئے چڑھانے لیکر قبروں میں سوئے ہووں کو حاجت روا دعارس سمجھنے تک سب کی سب بدعات ہیں اور غیراسلامی شعائر ہیں!
ذیل میں کچھ امیجز دئیے جا رہے ہیں جو سوشل میڈیا پر چلائے جاتے ہیں۔ اس وظیفے کو اتنی باراس مخصوص انداز میں پڑھو تو یہ ہوگا وہ ہوگا – یہ سب کے سب انسانی وسوسے اور قیاس ہیں جنکی قرآن اور حدیث سے کوئی ثبوت نہیں، ان پر اپنا ایمان خراب مت کریں
آئندے سال اپنے ایمان کی تجدید کیجیے اور ایسی بدعات سے بچنے کی کوشش کیجیے۔ یاد رکھئیے کہ اللہ ہروقت ہر لمحہ آپ کی دعائیں اور عبادات قبول کررہا ہے۔ ہر رات اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر موجود ہوتا ہے! یہ کسی ایک رات کی نسبت نہیں!
Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat Shab-e-Baraat
بقلم : مسعودؔ
Add Comment