PPP – Past, Present, Future
گزرے سالوں کی پاکستان ٹیلیوژن کی ایک انتہائی خوبرو! اور ہردل عزیز نیوزریڈر ماہ پارہ صفدر کی ایک ٹویٹ دیکھی،! جسکے ایک جملہ پر یہ بلاگ لکھا گیا ہے!
پہلے ٹویٹ ملاحظہ کیجیے:
اس ٹویٹ میں جو جملہ ہائی لائٹ کیا گیا ہے وہ ہے! “جس میں وہ پیپلزپارٹی کو زرداری کی پارٹی کہتی ہے” توجہ طلب ہے اور اس بلاگ کی بنیاد ہے!
میں نے محترمہ ماہ پارہ سے استفسار کیا کہ! “کیا موجودہ پیپلزپارٹی زرداری ہی کی پارٹی نہیں ہے؟”! اسکا جواب انہوں نے نہیں دیا مگر انکی ٹویٹ اور خاموشی اس بات کا اظہار ضرور کرتی ہے !کہ آپ کی سیاسی ہمدردیاں پیپلزپارٹی ہی کیساتھ ہیں۔! میں جو ہمیشہ حقائق تلاش کرنے کا عادی ہوں،! سوچا کہ پیپلزپارٹی کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ عوامی پارٹی جسے! ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے خون پسینے سے سینچا، آج وہ کہاں کھڑی ہے۔
انتہائی بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ تکمیلِ پاکستان کے فوری بعد قائدِاعظم وفات پا گئے! جس سے اس نومولود ملک میں سیاسی انخلا پیدا ہو گیا۔! لیاقت علیخان نے اس انخلا کو پر کرنے کی کوشش کی مگر 1951 میں انکے قتل نے اس انخلا کو مزید سخت کر دیا۔! تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں مسلم لیگ سیاسی استحکام پیدا کرنے میں ناکام رہی۔! اسکے بعد جتنی بھی سیاسی حکومتیں قائم ہوئی وہ سیاسی دماغ کی عدم موجودگی اور مفادپرستی کی وجہ سے ناکام رہیں۔! جسکی ایک بدتر مثال فیروزخان نون کی وقتی حکومت تھی۔! فیروزخان نون بذاتِ خود ایک Land Lord تھے لہذا وہ کسی قسم کے Land Reform کے حق ہی میں نہیں تھے۔! مفاد پرستی اسقدر تھی کہ پاکستان کا پہلا آئین 1956 میں بنا جو کہ دوسال بعد ہی ناکامی کی صورت میں تحلیل کر دیا گیا!
اس وقت متحدہ پاکستان میں اصل جمہوری تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی! فقط ایک ہی سیاسی جماعت تھی مگر اس کی بنیادیں مشرقی پاکستان میں تھیں۔! عوامی لیگ جس نے بعد میں سقوطِ ڈھاکہ میں ایک اہم رول ادا کیا۔! مغربی پاکستان میں وہی مسلم لیگ تھی جو تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کا حصہ بنی مگر! جو قائدِ اعظم اور لیاقت علیخان کی وفات کے بعد سیاسی قوت کھو چکی تھی۔
ذوالفقارعلی بھٹو 1956 میں اسکندرمرزا کی حکومت میں کیبنٹ کے ممبر چنے گئے۔! ایوب خان کا ذوالفقارعلی بھٹو پر ایک خاص کرم تھا۔! ایوب نے اپنے دورِ حکومت میں بھٹو کو مختلف عہدوں پر عنایت بخشی جو 1965 میں وزارتِ خارجہ پر آ کر ٹھہری۔! سن 65 کے جنگ کے بعد تاشقند معاہدے پر ذوالفقارعلی بھٹو اور صدر جنرل ایوب خان کے درمیاں ہوا سرد ہونا شروع ہو گئی! اور بھٹو نے ایوب کی برملا ملامت کرنا شروع کر دی۔
بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ میں شمولیت کا اظہار کیا! مگر عوامی لیگ کی جانب سے بھٹو کو کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔! خود کو عوامی لیگ کی رکنیت سے معذور دیکھ کر بھٹو نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔! اور یوں 30 نومبر اور یکم دسمبر 1967 میں لاہور میں ڈاکٹرمبشرحسن کے گھر پر منعقد ہونے والے! ایک اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کا قیام ہوا۔ اسی موقع پر بھٹو کو اسکا پہلا چئیرمین چنا گیا۔
اس نئی جماعت کا منشور ایک بنگالی کمیونسٹ جے اے رحیم نے 9 دسمبر 1967 کو پیش کیا جو تھا:
“اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، اشتراکیت (سوشلزم) ہماری معیشت ہے، طاقت عوام کی ہے“
جماعت کا اہم مقصد طبقات کی تقسیم کو ختم کر کے ایک ایسا سوشلسٹ نظام قائم کرنا تھا! جس میں تمام افراد کو یکساں مواقع دستیاب ہوں۔! مگردرحقیت یہ جماعت تین مختلف نظام کا مربہ بن گئی جس میں
1) مارکسزم 2) اسلامی سوشلسزم اور 3) جاگیردارنہ نظام کے عناصر موجود تھے۔
ایوب خان نے 1968 میں اپنی کامیابیوں کا جشن منایا !مگر ساتھ سے ملک بھر میں ایک طرف طلبا اور دوسری جانب بیروزگاری کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔! اسی دوران ملک کی اسوقت تک کی سب سے بڑی اور مضبوط ترین سیاسی جماعت نیشنل عوامی لیگ میں نظریات کی پھوٹ پڑ گئی! اور ایک طرف چین کی ہمدرد میں مولانا بھاشانی اور دوسری جانب سویت یونین کے حق میں ولی خان کے راستے جدا ہو گئے۔! اس سے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا ہو گیا! اور ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو یہ خلا بھر سکتا تھا۔
بھٹو نے انتہائی چابکدستی سے وہ خلا پورا کیا! اور جب بھاشانی کے انقلابی عزائم ایک جانب اور ولی خان کے ڈیموکرٹیک عزائم دوسرے جانب آپس میں لڑ مر رہے تھے! بھٹو نے عوام کی دکھتی ہوئی رگوں کو انتہائی شاندار طریقے کی چھیڑا۔! روٹی کپڑا اور مکان، سوشل جسٹس، بھوکوں کو کھانا، بے گھروں کو گھر اور ایسے دوسرے نعروں نے عوام کے دل جیت لیے۔! اور عوام نے بھٹو کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اور یوں پیپلزپارٹی راتوں رات ایک زبردست سیاسی جمیعت کے طور پر ابھر آئی۔
پاکستان میں پہلے آزاد الیکشن کا انعقاد 1970 میں ہوا۔! الیکشن میں شمولیت کے لیے پیپلزپارٹی میں اختلاف پایا گیا۔! ہالہ کانفرنس میں جماعت کے کچھ لوگوں نے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے پر زور دیتے ہوئے انقلابی طور پر حکومت ہتھیانے کا مشورہ دیا! جبکہ دوسری جانب جمہوری تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے کو ترجیح دی گئی۔
الیکشن 1970 میں ہوئے اور مغربی پاکستان میں تو پیپلزپارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کی! اور 138 میں سے 81 نشستیں جیت گئی مگر مشرقی پاکستان میں پی پی پی کو ایک بھی نشست نہ ملی۔! جبکہ عوامی لیگ کو 160 سیٹیوں پر کامیابی ملی۔ یوں ہر جمہوری تقاضے سے مجیب الرحمٰن کو حکومت بنانے کا حق تھا۔! مگر بھٹو نے یہ حق اسے دینے سے انکار کرتے ہوئے دو جماعتی حکومت بنانے کا مشورہ دیا۔! یعنی مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی حکومت بنائے اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ – جو کہ مجیب الرحمٰن نے ٹھکرا دیا۔
دونوں جانب کی طاقت کی ہوس اسقدر عروج پر تھی کہ اس سے سقوطِ ڈھاکہ ناگزیر ہو گیا۔ (پڑھے یہ بلاگ)
سقوطِ ڈھاکہ ہو گیا۔! ملک تقسیم ہو گیا اب بھٹو نے مغربی پاکستان جو اب پاکستان بن گیا اسے ایک معاشی طاقت بنانے کا عزم کیا۔! اس ضمن میں بھٹو نے وہ قدم اٹھایا جو بھٹو کی زندگی کی شاید سب سے بڑی غلطی اور گناہ کے مترادف ثابت ہوا۔! بھٹو نے تمام اداروں کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ تمامتر انڈسٹریز کو بھٹو نے قومی تحویل میں لے لیا۔! جو کسی بھی طور ایک جمہوری عمل نہیں کہلوایا جا سکتا بلکہ یہ ایک مارکسٹس یا کمیونزسٹ عمل تھا۔! اگر سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کی اقتصادی حالت کو ضرب لگی تو بھٹو کے اس عمل نے اس شدید کچل کر رکھدیا۔
خارجہ سطح پر بھٹو کو بہت کامیابی ملی مگر داخلی سظح پر ملکی حالات ابتری کا شکار ہوتے چلے گئے۔! اس دوران جو پی پی پی کی کامیابیوں کی لسٹ تھی اس میں:
- ملک کا پہلا آئین مرتب اور نافذ کیا
- پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا
- پاکستان اسٹیل ملز اور ہیوی انڈسٹریز شروع کیں
- دوسری اسلامی سربراھی کانفرنس کامیابی سے منعقد کی
- پاکستان کی جنگی قیدیوں کو واپس لایا گیا
- قادیانیوں کوائینی طور پر غیرمسلم قرار دینا
بیشک بھٹو اور پی پی پی عوام میں مقبول تھی مگر بھٹو سے کچھ فعش قسم کی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔
جس میں بلوچستان کی منتخب حکومت پر فوجی یلغار، اپنی ہی پارٹی کے اندر دھڑے بازیوں پر کڑی نظر رکھنے کے لیے! اسٹیبلشمنٹ کو ان پر مقرر کرنا، صنعتوں پر سوشلزم کا نفاذ بغیر کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، جاگیرداروں کو پارٹی میں جگہ دے دی گئی،! اندرونی مخالفتوں کو دشمنی سمجھ لیا گیا اور ملک معراج خالد جیسے ساتھی کو نکال دیا! اور جنرل ضیاالحق جیسے تیسرے درجے کے جنرل کو اٹھا کر چیف آف ارمی اسٹاف لگا دیا۔ اسکے علاوہ بھٹو کی شرابی نوشی عوامی سطح تک مشہور تھی۔
مگر ان تمام نقائص کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول ترین سیاسی جماعت تھی۔! اسکا مظاہرہ 1977 کے عام انتخابات ہوا جب پی پی پی کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی! اور اپوزیشن جو دراصل کچھ غیراہم، حادثاتی اور معمولی سیاسی جماعتوں کا مجمعوعہ تھی، نے بری طرح شکست کھانے کے بعد زبردست دھاندلی کے الزامات لگانا شروع کر دئیے۔! بھٹو نے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے مخالفین کو عہدوں کا لالچ دیا اور کچھ کیساتھ اس کی ڈیل ہو گئی مگر جنرل ضیاالحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
اگلے دو سال یعنی 1977 سے 1979 تک پی پی پی کے لیے سخت ترین سال ثابت ہوئے! یوں ضیاالحق کی ڈکٹیٹرشپ میں پی پی پی کے راہنماؤں کو کڑی سزائیں دی گئی۔! جسکی انتہا خود بھٹو کی پھانسی پر ہوئی۔ ضیاالحق نے اپنے استبدادی دور میں بینظیر اور اسکی والدہ نصرت بھٹو پر شدید ظلم و ستم کیے۔
سن 82 میں بینظیر کو پی پی پی کی چئیرپرسن چنا گیا۔ بینظیرننے اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے Movement for the Restoration of Democracy کے نام سے مہم شروع کی۔ پی پی پی کے اکثر وہ رکن جو پی پی پی کے مرکز سمجھتے جاتے تھے وہ اس بات سے ناخوش تھے کہ ایسی جماعتیں جن کے ساتھ ہمارا منشور، ہماری سوچ، ہمارا مشن نہیں ملتا انہیں اس ایم آر ڈی میں شامل نہیں کرنا چاہئے تھا – مگر انکی شنوائی نہ ہوئی تو کچھ نے پی پی پی کو چھوڑ دیا۔
ضیاالحق کا 18 اگست 1988کو قتل ہو گیا۔! ضیا کے قتل کے بعد بینظیربھٹو پاکستان آئیں اور عوام نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔! شاید اس لیے بھی کہ عوام بھٹو کے قتل اور ضیا کی ڈکٹیٹرشپ کو ناجائز سمجھتی تھی،! مگر اس لیے بھی ملکی حالات ابتر سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے اور امید تھی! کہ بینظیر ایک سلجھی ہوئی سیاستدان کی طرح ان حالات پر قابو پائے گی۔
وطن واپسی پر بینظیر کی شادی ملک کے ایک کرپٹ ترین بزنس مین آصف علی زرداری سے کر دی گئی۔ سن 1988 کے انتخابات میں بینظیر کو کامیابی حاصل ہوئی۔ دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اسکے ساتھ ہی بینظیر جو کہ ایک جمہوری لیڈر تصور کی جا رہی تھی اس نے عہدوں کی لوٹ مار مچا دی۔ یوں خزانے کی چابیاں اپنے پاس رکھ لیں، اپنی ماں نصرت بھٹو کو منسٹر اور اپنے سسر حاکم علی زرداری کو ایک دوسرے اہم عہدے پر فائز کر دیا۔ اس غیر جمہوری عمل سے ممتازعلی بھٹو سمیت اہم ارکان نے پی پی پی کو pro-capitalist کہہ کر خیرآباد کہہ دیا۔
ادھر ایک نئی طرز کی سیاست کا آغاز ہو چکا تھا۔! وہ سیاست لاہور کے ایک لوہار جسے ضیاالحق نے سڑکوں سے اٹھا کر پنجاب کا وزیر لگا دیا تھا اسنے شروع کی تھی۔! نوازشریف نے پاکستان مسلم لیگ ن کی بنیاد رکھتے ہوئے چھانگا مانگا کے! حسین ریزوٹ اور مری کے پرتعیش ہوٹلوں میں سیاستدانوں، ججز، بیوکریسی! اور اہم شخصیات کے سروں کیساتھ ضمیروں کی قیمتیں لگانا شروع کر دی۔! پیسوں کے بدلے میں وفائیں خریدنے کی سیاست شروع ہو گئی! اور ججز سمیت بیوکریسی راتوں رات امیر بننے کی ہوس میں اپنے ضمیروں کا سودا کرنے لگی۔
اس سیاست کا نتیجہ یہ نکلا کہ بینظیر کی پہلی حکومت کو کبھی کام کرنے کا موقع دیا ہی نہ گیا تھا! اور 1990 ہی میں اسکی حکومت کو معاشی بدحالی، سکیورٹی اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی پاداش میں برخاست کر دیا گیا۔! 1990 کے الیکشن میں پی پی پی نے بائیکاٹ کیا اور یوں نوازشریف تقریباً بلامقابلہ حکومت تھامنے کا حقدار بن گیا۔ ! پی پی پی نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہی کردار ادا کیا جو پہلے نون لیگ کر چکی تھی! یعنی حکومت خلاف ریلیاں، کرپشن اور ناکامی کے الزامات اور کسی بھی طور حکومتِ وقت کو کام نہ کرنے دیا۔! اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ نوازشریف کی حکومت کو برخاست کر دیا گیا اور الیکشن کا اعلان کر دیا گیا۔
جیسا کہ اب ایک ٹرینڈ بن چکا تھا! کہ ہم تم پر اور تم ہم پر الزامات لگاؤ اور حکومت کرو۔
1993 کے الیکشن میں پی پی پی کو کامیابی حاصل ہوئی! مگر انہیں حکومت بنانے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کا سہارا لینا پڑا۔! فضل الرحمٰن جو پہلے عورت کی حکومت کے خلاف فتویٰ جاری کر چکا تھا،! اب اسکو قبول کر کے حکومت کا حصہ بن گیا۔ اس سے پی پی پی کے اندر شدید اختلافات پیدا ہو گئے! اور پی پی پی 3 دھڑوں میں بٹ گئی: 1) بھٹوازم 2) پی پی پی پارلیمنٹارئینز 3) شیرپاؤازم
ان میں بھٹوازم جسکا قائد بینظیر کا بھائی میرمرتضیٰ بھٹو تھا۔! واقعہ یہ ہوا کہ مرتضیٰ بھٹو کے مطابق آصف علی زرداری جو ایک انتہائی کرپٹ اور بدمعاش صفت آدمی تھا،! پی پی پی کی سیاست میں شدید ترین اثرانداز ہو رھا تھا! اور بینظیر اپنے شوہر کی ہمدرد ہونے کے ناطے سے اسکو برداشت کرتی چلی گئی۔! مرتضیٰ بھٹو اس کو بھٹو کی پی پی پی کی موت کی مترادف سمجھتا تھا،! مگر بینظیر اس سے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔! ان اختلافات نے مرتضی بھٹو کو راستے جدا کرنے اور ایک نئی پارٹی بنانے پر اکسایا۔! جو کہ سندھ میں انتہائی پاوورفل بن گئی جو پی پی پی کے سخت خطرہ بننے لگی۔
یہ خطرہ پی پی پی اور بینظیر اور خاص کر زرداری کے لیے! دردِ سر بنتا گیا جسکا نتیجہ 1996 میں میرمرتضیٰ بھٹو کے قتل پر ختم ہوا۔ یہ قتل ایک مشہور “پولیس مقابلہ” تھا! جسکے بعد زرداری خاص کر اور پی پی پی عام طور پر پولیس مقابلوں کے لیے مشہور ہو گئی۔! یہ بات زبانِ عام پر ہے کہ میرمرتضیٰ بھٹو کا قتل زرداری نے بینظیر کی اجازت سے کروایا ہے۔! اس قتل کے بعد پی پی پی کے اندر شدید اختلافات جنم لیتے رہے! اور اکثر ایسے ممبرز جو ذوالفقار علی بھٹو کی پی پی پی کو زرداری کی پی پی پی بنتے دیکھکر! اور دن رات تباھی کی جانب جاتا دیکھکر راستے جدا کرتے ہوئے دوسری پارٹیوں میں شریک ہوتے رہے۔
مشرف نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ 1997 میں الٹا۔! اسکے بعد بینظیر، زرداری خودساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے دبئی جبکہ نوازشریف مشرف سے این آر او کے تحت ڈیل کر کے جدہ بھاگ گیا۔! ضیاالحق کی ڈکٹیٹرشپ کے مقابلے میں مشرف کی استبدادی حکومت لاکھ درجہا بہتر تھی۔! جب بینظیر اور نوازشریف کو اپنی اپنی جلاوطنی میں محسوس ہوا کہ ہمیں کچھ کرنا ہو گا ورنہ پاکستان سے ہماری سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا! تو دونوں جنم جنم کے دشمن اور ایک دوسرے پر توہ لعنت کرنے والوں نے لندن میں بیٹھ کر میثاقِ جمہوریت کا ڈھونگ رچانا مناسب سمجھا۔
یوں ایک کے بعد دوسرا میثاقِ جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے پاکستان آ گئے۔ مگر! زرداری کی سیاست کا انداز وہی ہے! جو نوازشریف کی سیاست کا ہے: کرپشن، منی لانڈرنگ، لوٹ مار، کچھ لگاؤ زیادہ کھاؤ، قتل، الزامات، ضمیروں کی خریداری،! اعلیٰ عہدوں پر موجود لوگوں سے رشتہ داریاں تاکہ وہ قید ہو سکیں،! عزتوں کی لوٹ مار اور بیوکریسی کو ایسا پھنسا دو کہ تمہارے سامنے زبان نہ کھول سکے۔! اس پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے زرداری کے سامنے ابھی بینظیر موجود تھی جو ابھی بھی پی پی پی کی لیڈر تھی۔! لہذا پی پی پی پر وہ مکمل قبضہ جو زرداری چاھتا تھا، وہ ابھی ناممکن تھا۔
میرمرتضیٰ بھٹو کی طرح بینظیر کا بھی پراسرار قتل ہو گیا!
بینظیراپنی الیکشن کمپئین میں مصروف تھی! اور ایک بلٹ پروف گاڑی میں سفر کر رھی تھی! جب اسے غالباً شیریں رحمٰن جو بینظیر کیساتھ اس بلٹ پروف گاڑی میں موجود تھی،! راولپنڈی میں ایک مقام پر جہاں بہت سارے پی پی پی کے وورکرز موجود تھے،! چھت سے نکل کر ہاتھ ہلانے کو کہا۔ اس دوران ایک بندہ جو وہیں سے بینظیر کی بلٹ پروف گاڑی کے عقب پر چڑھ کر فائرنگ کرتا ہے۔! بینطیر شدید زخمی حالت میں جنرل ہسپتال لائی جاتی ہے! جہاں پر وہ وفات پا جاتی ہے۔ اس قتل کا بھی کبھی حقیقی معنوں میں سراغ نہیں لگایا گیا ! اور نہ کبھی اسکو کریدنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جبکہ بینظیر کے پروٹوکول آفیسر اسلم چوھدری کے مطابق رحمٰن ملک اور بابر اعوان کی ملی بھگت اور سکیورٹی کی کمزوریوں کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔! قتل کس نے کروایا کیوں کروایا یہ سب راز ہے مگر سب لوگ حالات کو پڑھ سکتے ہیں! کہ یہ قتل کس کے حق میں تھا۔ وہ آج بھی سراٹھا کر چل رہے ہیں۔ بینظیر کا قتل اور مشرف کی استبدادی حکومت:! بالکل وہی حالات جو 1988 میں تھے جب بے نظیر پہلی بار حکومت میں آئی۔
اس بار عوام نے اپنی تمامتر ہمدریاں پی پی پی کو دیدیں! اور یوں زرداری اپنے ناپاک مقاصد میں بالآخر کامیاب ہو گیا! جس کے لیے اس نے کبھی جیلیں برداشت کی تھیں۔! زرداری اور نوازشریف نے اس میثاقِ جمہوریت کو، جو لندن میں تحریر پایا،! عملی جامہ پہناتے ہوئے 9 مارچ 2008 کو اعلان کیا کہ آئندہ دونوں پارٹیاں ملکر کام کریں گی۔! درحقیقت یہ “پانچ سال تیرے پانچ سال میرے” کی طرزِ حکومت کا اعلان تھا۔! اس کے لیے دونوں نے ایک دوسرے کو بظاہر کتا بلا کہنے جبکہ اندر اندر چوما چاٹی کرنے کا ایعادہ کیا۔! یہ اعلان تھا کہ تم اپنے پانچ سال میں جو کرو، وہ تمہیں روا ہے! اور جو ہم کریں وہ ہمیں جائز ہے نہ تم ہمارا احتساب کرو نہ ہم تمہارا احتساب کریں۔
حاصل کلام
درحقیقت وہ پی پی پی جو ایک سوشلسٹ اور سیاسی جماعت تھی! جس کی بنیاد ذوالفقارعلی بھٹو نے رکھی، بینظیر نے اسے دائیں بازور کی سیاست سے نکال کر لبرل بنانے کی کوشش کی! جبکہ وہ زاردی تک پہنچتے پہنچتے ایک انتہائی غیرسیاسی، پرتشدد، قتل و غارت سے بھرپور، منی لانڈرنگ سے لبریز، وڈیرہ ازم سے بھری ہوئی پارٹی بن کر رہ گئی۔! سیاست نام کی کوئی بات اس میں موجود نہ رھی اور یہاں تک کہ اسکا اپنا کوئی خاص منشور تھا نہیں رھا۔! ووٹ لینے کی صرف اور صرف ایک کارڈ استعمال کیا جاتا ہے: شہیدبھٹو اور شہید بی بی! اسکے علاوہ کوئی ایسا سیاسی منشور جس پر یہ پارٹی عوام سے بات کر سکے موجود نہیں!
درحقیقت پاکستان کی عوام عمران خان کی موجودگی میں پی پی پی کی حقیقت سے بخوبی واقف ہوئی ہے۔! جس انداز میں عمران خان نے پی پی پی اور نون لیگ کو بے نقاب کیا ہے،! اس سے عوام میں شدید شعور پیدا ہوا ہے۔! عوام جان چکی ہے کہ پی پی پی کا جو “روٹی کپڑا اور مکان” کا اعلان تھا، آج بھی پی پی پی اسی سے عوام کو پھدو لگا رھی ہے۔! عوام جان چکی ہے کہ اس پارٹی کے رہنما اور خاص کر زرداری کرپشن اور بدمعاشی کا سرغنہ بن چکا ہے! اور پاکستانی عوام کو عموماً اور سندھی عوام کو خاص بیوقوف بنانے کے اور کچھ نہیں کیا۔! یہی وجہ ہے کہ آج سن 2020 میں جب عمران خان کی حکومت ہے،! پی پی پی اور نون لیگ ایک بار پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اپنی اپنی سیاست کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ! اس کے لیے وہ عمران خان کے خلاف شدید ترین پراپوگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔
پیپلزپارٹی میں آج بھی اچھی سیاسی سوچیں موجود ہیں! مگر ان کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ وہ ذہنی غلام ہیں۔! وہ جانتے ہیں کہ زرداری کے سامنے وہ زیر ہیں۔! وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان پر انکی اولادوں پر زرداری اور “سن آف زرداری” ہی حکومت کریں گے۔! جس سیاسی جماعت کی یہ حالت ہو گی اسکے قابل ترین سیاسی نطف خود کی ایک pamper میں لپٹے بچے کے آگے غلام رکھیں وہ سیاسی جماعت تباہ ہو جاتی ہے۔! اسکا تقدس مر جاتا ہے۔ اسکی سوچ سے غلامی نہیں نکل سکتی اور اگر انکی اپنی سوچ سے غلامی نہیں نکل سکتی تو وہ عوام کو کیا خاک ریلیف دیں گے؟؟؟! اعتزازاحسن جیسے معتبر اور قابل سیاستدان کی موجودگی میں ایک غیرسنجیدہ، ناتجربہ کار اور غیرسیاسی بلاول بھٹو کو پارٹی کا ہیڈ بنا دینا! اعتزازاحسن کی عمربھر کی سیاسی کمائی پر لعنت کے مترادف ہے۔ مگر مؤرثی سیاسی جماعتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے! جو بالآخر ایک سمجدار قوم میں آ کر سیاسی جماعت کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔!
اور پی پی پی اپنی سیاسی موت کے قریب پہنچ چکی ہے۔! اسوقت پی پی پی فقط ایک سندھی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔! جسکی وجہ وہ وڈیرہ ازم ہے جسے بھٹوز اور زرداریز حرام کھلاتے ہیں تاکہ وہ عوام پر دباؤ رکھیں اور انہیں کو ووٹ دیں۔! سندھ میں اکثر مقام پر بھٹو کے نام کے سوا ووٹ دینا گناہ سمجھا جاتا ہے! کیونکہ اس عوام کو تعلیم سے اس قدر دور رکھا گیا ہے! کہ وہ خود سے سوچنے سمجھنے سے قاصر ہیں، انہیں بھوکا رکھا گیا ہے! کہ انکی دوڑ صرف اور صرف وڈیرے کی جاگیر تک ہو، جہاں سے اسے ووٹ کے عوض روٹی ملے۔ Pakistan Peoples Party, PPP, Zulifqar Ali Bhutto, Benazir Bhutto, Bilawal Bhutto, Pakistan Politics PPP –
Add Comment