دوست دشمن نے کیے قتل کے ساماں کیا کیا
جانِ مشتاق کے ہوئے پیدا خواھاں کیا کیا
چشمِ بینا بھی عطا کی، دلِ آگہ بھی دیا
میرے اللہ نے مجھ پر کیے احساں کیا کیا
معدوم داغِ عشق کا دل سے نشاں ہوا
افسوس بے چراغ ہمارا مکاں ہوا
راحت سے ایکدن نہ ہوا عشق میں بسر
غم پر غم اپنے کو الم پر الم ہوا
دردِ دل کے کہنے میں ہے کیا پس و پیش
کہی جاتی ہے منہ تک آئی بات
یہ صدا آتی ہے خموشی سے
منہ سے نکلی، ہوئی پرائی بات
گرمئ خورشید محشر کیا جلاوے گی ہمیں
ابرِ رحمت حال پر اپنے کرم فرمائیگا
باغِ عالم کی ہوا آتشؔ نہ راس آئی مجھے
دوست جس گل کا رھا میں وہ میرا دشمن رہا
ہوائے دہر اگر انصاف پر آئی تو سن لینا
گل و بلبل چمن میں ہونگے، باہر باغباں ہو گا
خیالِ تن پرستی چھوڑ فکرِ حق پرستی کر
نشان رہتا نہیں ہے نام رہ جاتا ہے انساں کا
فاتحہ پڑھنے کو آئے قبرِ آتش پر نہ یار
دو ہی دن میں پاسِ الفت اسقدر جاتا رہا
کاٹ کر پر بھی مجھے صیاد بے قابو نہ چھوڑ
ناتواں ہوں، باد کا جھونکا اڑا لے جائیگا
کہاں جاتی ہے یہ ہر چند بھاگے شوق منزل سے
ہمیں آگے ھیں جب پیچھا کیا عمرِ گریزاں کا
آشیانہ، قفس اور نہ چمن یاد آیا
آنکھ کھلنے بھی نہ پائی تھی کہ صیاد آیا
ایک دن ہچکی بھی نہ آئی مجھے غربت میں
میں کبھی نہ تم کو اھلِ وطن یاد آیا
سجدۂ شکر زمیں پر نہ کروں میں کیونکر
آسماں سے ہے میرا رزقِ خداداد آیا
انتخاب و پیشکش: مسعودؔ
Khawaja Haider Ali Aatish Poetry, Urdu Poetry,
Add Comment