Urdu Hasrat Poetry, hasti, rudaad, muhabbat, chashm, andhera, daastan, tamana, sila, rukhsat, mehroomi, dolat, fursat,deed, eid, azab, farq, fard, qarz, urdu sad poetry
بیاض حسرت
خواہشیں، حسرتیں، تمنائیں
لمحہ لمحہ نئی اذیت ہے!
زندگی بھر کا سوچنے والو!
زندگی کی کوئی ضمانت ہے!
عدم سے ہستی میں جا کر یہی کہوں گا میں
ہزاروں حسرتِ زندہ کو گاڑ داب آیا!
رودادِ محبت کیا کہیے، کچھ یاد رہی کچھ بھول گئی
دو دن کی حسرت کیا کہیے، کچھ یاد رہی کچھ بھول گئی
رہ گئی دل ہی میں اپنے حسرتِ اظہارِ شوق
لکھ کے خط جب ہم نے ڈھونڈا نامۂ بر کوئی نہ تھا
حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
میں نے تجھ سے مخاطب ہوں تیرا حال بھی پوچھوں
تھا شک بن کے میری آنکھوں میں سما جا
میں آئینہ دیکھوں تو تیرا عکس بھی دیکھوں
اے جنوں دشتِ عدم کے کوچ کا ساماں کیا
جسم کے جامے کو میں نے چاک تا داماں کیا
مر گئیں تیری جدائی میں ہزاروں حسرتیں
عشق غارت گر نے میرے دل کو گورستاں کیا
حسرتوں کا خون مل دوں گا رخِ حالات پر
جاؤں گا محفل سے لیکن رنگ اپنا چھوڑ کر
چشمِ نظارہ کو شاید یہ نہیں معلوم تھا
روشنی جاتی ہے آنکھوں میں اندھیرا چھوڑ کر
میرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
میری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے
[/box]
تجھے بھول کر نہ بھلا سکوں، تجھے چاہ کر نہ پا سکوں
مری حسرتوں کا شمار کر مری چاہتوں کا صلہ نہ دے
اب دل کی تمنا ہے تو کاش یہی ہو
آنسو کی جگہ دل سے حسرت نکل آئے
رخصت ہوا جو سال تو محسوس یہ ہوا
ہر ماہ حسرتوں کا لہو چوستا رہا
[/box]
محرومیوں کے دور میں کن حسرتوں کے ساتھ
ہم پتھروں کے دل میں خدا ڈھونڈتے رہے
ہزاروں حسرتیں جاویں گی میرے ساتھ دنیا سے
شرار و برق سے بھی عرصۂ ہستی کو کم پایا
مر گئیں تیری جدائی میں ہزاروں حسرتیں
عشقِ غیرت گر نے مرے دل کو گورستان کیا
تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو
میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو
حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشتِ امید میں گرداں ہیں دیوانے کب سے
دیر سے آنکھ پہ اترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمے ہے ترا فرض نہ جانے کب سے
لمحوں میں قید کر دے جو صدیوں کی چاہتیں
حسرت رہی کہ ایسا کوئی اپنا بھی طلبگار ہوتا!
حسرت ہے تمہاری دید کریں
تم آؤ تو ہم بھی عید کریں
ہم خاکِ زمیں ہو کر اس چاند کی حسرت کر بیٹھے
وہ چیز ستاروں سے بھی اونچی تھی جسے ہم محبت کر بیٹھے
میری حسرت کے جنازے کو اٹھانے والے
کتنے بیدرد لوگ ہیں یہ زمانے والے
کوئی اپنا نہیں مطلب کی ہے دنیا ساری
اب کہاں ملتے ہیں وہ یار پرانے والے
کون اپنا تھا یہاں کس پہ عنایت کرتے
ہمیں حسرت ہی رہی ہم بھی محبت کرتے
اس نے سمجھا ہی نہیں ہمیں کسی قابل
ورنہ اس سے عشق نہیں اسکی عبادت کرتے
کون اپنا تھا یہاں کس پہ عنایت کرتے
ہمیں حسرت ہی رہی ہم بھی محبت کرتے
اس نے سمجھا ہی نہیں ہمیں کسی قابل
ورنہ اس سے عشق نہیں اسکی عبادت کرتے
تیرے آنے کی آس پر زندہ ہوں اب تک
اب تجھے دیکھنے کی حسرت کے سوا کچھ نہیں
تصویر تیری آنکھوں میں اتر گئی اس طرح
نظر کہیں بھی جائے تیری صورت کے سوا کچھ نہیں
حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے پکارے
ارمان ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے
اسکی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہیں سکوں
ڈھونڈتا اسکو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
میری جانِ جگر اب میری نظر کے سامنے ہے
میری لختِ جگر اب میری نظر کے سامنے ہے
جس کے دیدار کی حسرت میں میں کب سے تھا بے چین
وہ شام و سحر اب میری نظر کے سامنے ہے
حسرت سے دیکھتا ہوں انجامِ سفر کو میں
پا بھی سکوں گا اپنی دعا کے اثر کو میں
غمِ انتظار عالمِ نزاع سے کم نہیں
سمجھاؤں کیسے تجھ سے بالغ نظر کو میں
ساتھ چلنے میں جو مزہ ہوتا
وہ ہمیں بھی کبھی ملا ہوتا
یہی حسرت رہی ہماری فقط
ساتھ اپنے کوئی چلا ہوتا
افسانے دردِ محرومی کے دوہرائے نہیں جاتے
کچھ ایسے زخم ہوتے ہیں جو دکھائے نہیں جاتے
تمنا، آرزو، حسرت، امید، وصال اور چاہت
یہ لاشے رکھ لیے جاتے ہیں دفنائے نہیں جاتے
بڑھ گئی ہے عشق میں حرص اسقدر اپنی کہ ہے
غمِ پہ غم کی آرزو، حسرت پہ حسرت کی طلب
تھی جو مدت سے حسرتِ انصاف
فیصلہ لکھ دیا خود اپنے خلاف
حسرتِ دید دلِ زار میں مر جائے ہے
عید پردیس میں بے کیف گزر جائے ہے
غم مجھے، حسرت مجھے، وحشت مجھے، سودا مجھے
اک دل دیکر خدا نے دے دیا کیا کیا مجھے
مرے محبوب تری راہ میں نظریں بچھائے ہم
کھڑے ہیں آج بھی حسرت چھپائے سینے میں
ان کی حسرت میری تقدیر میں لکھنے والے
کاش ان کو میری تقدیر میں لکھا ہوتا
تیری ہنستی ہوئی دنیا میں یا ربّ
ہمیں ہنسنے کی حسرت ہی رہی ہے
نہ اتنا بھی کوئی حسرت زدہ مجبور ہو جائے
کہ ہو نزدیک منزل اور اس سے دور ہو جائے
حفاظت دل کی کیوں کوئی کرے راہِ محبت میں
یہ شیشہ ہے یہی بہتر کہ چکنا چور ہو جائے
کچھ آرزو کے پھول تصور میں کھل اٹھے
حسرت کا اک مزار بنا کر چلے گئے
اپنوں نے رہبری کا تقاضا کیا تھا خوب
کانٹوں کے جال راہ میں بچھا کر چلے گئے
اب حسرتِ نزولِ مسیحا کرے کوئی
ہر زخمِ لا علاج کو اچھا کرے کوئی
انتخاب و پیشکش: مسعودؔ
Add Comment