میری ڈائری سے
میری ڈائری سے – حصہ اوّل
اے جگرؔ ہے میری ہستی کی حقیقت اتنی
مجھ میں آباد ہیں سب، میں کہیں آباد نہیں
[/box]
یہ تیری یاد ہے یا میری اذیت کوشی
ایک نشتر سا رگِ جاں کے قریب آج بھی ہے
[/box]
جب وہ ملا تو کھو گیا میں خواہشوں کی بھیڑ میں
حاصل مجھے کتنا سکون اپنے اکیلے پن میں تھا
[/box]
میں تیری طرح دل کو سمجھتا نہیں شیشہ
ورنہ اس دنیا سے شکایت ہے مجھے بھی
[/box]
خواہشوں کا کوئی معیار ہوا کرتا ہے؟
کیسی خواہش ہے کہ مٹھی میں سمندر ہوتا
[/box]
اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
تجھ کو کھو کر تو میرے پاس رہا کچھ بھی نہیں
[/box]
میرے پڑوس میں گزرا ہے سانحہ کوئی
کہ سنگ آیا نہیں کوئی میرے آنگن میں
[/box]
اک ایسی بارش ہو میرے شہر پہ جو
سارے دل اور سارے دریچے دھو جائے
[/box]
یہ ایک لمحہ جو منسوب تیرے ہجر سے ہے
اس ایک لمحے میں صدیاں گزار بیٹھے ہیں
[/box]
کس قدر تھی سادہ لوحی میرے جذبات میں کبھی
کتنی آسانی سے وہ شخص تماشا بنا گیا مجھے
[/box]
تم اگر نہ آئے ہمارے سپنوں میں اے عدمؔ
تو پھر ہم راتوں کو سونا چھوڑ دیں گے
[/box]
انشأ جی یہ اور نگر ہے اس بستی کی ریت یہی
سب کی اپنی اپنی آنکھیں، سب کا اپنا اپنا چاند
[/box]
انکے پیچھے نہ چلو ان کی تمنا نہ کرو
سائے پھر سائے ہیں ڈھل جائینگے کچھ دیر کے بعد
[/box]
جا سمندر دیکھ لی ہم نے تیری دریا دلی
تشنہ لب رکھا صدف کو بوند پانی کے لیے
[/box]
رکھتے ہیں جو اوروں کے لیے پیار کا جذبہ
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کر بکھرا نہیں کرتے
[/box]
یہ کہہ کے دل نے میرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں
[/box]
میں تشنگی ہونٹوں پر لیے جب بھی گیا ہوں
شکنیں سی ابھر آئی ہیں دریا کی جبیں پر
[/box]
ہو گئے خوش تو فرشتوں سے کرائے سجدے
آ گئے ضد پہ تو فردوس میں رہنے نہ دیا
[/box]
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
[/box]
اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہو گئی
کیسے مٹاؤں دل سے ترے غم کی چھاپ کو
[/box]
روشن کرینگے خون سے ایسے چراغ ہم
بجھ بھی گئے اگر تو اجالا نہ جائیگا
[/box]
روتے روتے سو گیا وہ اک روٹی کے لیے
اپنے بیٹے کو کھلونا دیکر بہلانا پڑا
[/box]
میں نے سنا ہے ترکِ تعلق کے بعد
افسردہ گر نہیں تو وہ مسرور بھی نہیں
[/box]
ہائے وہ اشک جو شائستہ آداب ہوا
دل سے نکلا بھی نہیں آنکھ سے پھیلا بھی نہیں
[/box]
ایک مدت سے مری سوچ کا محور تو ہے
ایک مدت سے مری ذات کے اندر تو ہے
میں تیرے پیار کے ساحل پہ کھڑی ہوں تنہا
مری الفت، مری چاھت کا سمندر تو ہے
[/box]
ہو گا امیرِ شہر کا نہ مجھ سے احترام
میری زباں کے واسطے تالے خرید لو
[/box]
تم نے تو کہہ دیا میں انہیں جانتا نہیں
ہم آب آب ہو گئے غیروں کے سامنے
[/box]
یہ کیا سمجھ کے غمِ عشق دے رہے ہو مجھے
یہ کس نے تم سے کہا صاحبِ جگر ہوں میں
[/box]
اندر کے میلے پن کا ملے کس طرح سراغ
اندازہ لوگ کرتے ہیں اجلے لباس سے
[/box]
محسنؔ لگی نہ چوٹ نئی پھر خلوص میں
میں نے کہا نہ تھا کہ مرے یار سوچنا
[/box]
اتنا بے حس کہ پگھلتا ہی نہ تھا باتوں سے
آدمی تھا کہ تراشا ہوا پتھر دیکھا
[/box]
تو جو بدلا، بدل گئے ہم بھی
پیار کرتے تھے بندگی تو نہیں
وقت کٹ ہی جائیگا بہرصورت
تو کوئی شرطِ زندگی تو نہیں
[/box]
وہ جس کی یاد میں سارا جہان چھوڑ دیا
بنا کے اس نے بھی مجھے داستان چھوڑ دیا
[/box]
خود داریوں کا جسم، اناؤں کا دیوتا
ہائے وہ شخص پھر گیا اپنے اصولوں سے
[/box]
Add Comment