بیاضِ تصویر حصہ اول
تری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں
چھپ کے پہروں اسے اور دیکھنے والے بتلا
مجھ میں کیا بات نہیں جو مری تصویرمیں تھی
ہوا کے دوش پہ تحریر رکھ کے بھول گیا
گئے دنوں کی میں تصویر رکھ کے بھول گیا
پھر اسی شوخ کی تصویر اتر آئی ہے
مرے اشعار میں مضمر مری رسوائی ہے
شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
اور تو دل میں عدمؔ کچھ نہیں پایا جاتا
ایک روتی ہوئی تصویر نظر آتی ہے
اپنی تصویر دکھاتی ہے مجھے اب دنیا
وہی سنتا ہوں جو اک بار کہا تھا میں نے
اک پل میں لاکھوں تصویریں، ہر لمحہ اک دنیا
کتنے عالم کھو دیتا ہے آنکھ جھپکنے والا
رات محفل میں تری ہم کبھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
زلزلہ آیا وہ دل میں وقت کی رفتار سے
خود بخود تصویر تیری گر پڑی دیوار سے
قبر کے چوکھٹے خالی ہیں، انہیں مت بھولو
جانے کب کونسی تصویر لگا دی جائے
تصویر زندگی کا عجب آب و رنگ تھا
دیکھا تو پھول ہاتھ لگایا تو سنگ تھا
نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں
ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں
بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے
سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دئیے
دیوانہ کر گئی تری تصویر کی کشش
چوما جو پاس جا کے تو پیکر میں کچھ نہ تھا
ٹکڑے ٹکڑے مری تصویر کے کرنے والے
اب مجھے جوڑ! کہ بکھرا ہوا شیرازہ ہوں
مجھے یہ زعم کہ میں حسن کا مصور ہوں
انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے
دل کے صحرا میں کہاں عالمِ تنہائی ہے
جب بھی دیکھا تری تصویر نظر آئی ہے
کس نے محرابِ حرم سے تجھے نسبت دے دی
کس نے تصویر بنائی تری انگڑائی کی
گزری ہے بار بار مرے سر سے موجِ خشک
ابھرا ہوں ڈوب ڈوب کے تصویرِ آب میں
بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری
میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دونگا
وہ بولے دیکھ کر تصویرؐ یوسف
سنا جیسا اسے ویسا نہ پایا
اب حرم گاہوں کی تصویریں کھلی بکتی ہیں
میں نہ کہتا تھاکہ بازاروں کو مہنگا نہ کرو
اے مصور ترے ہاتھوں کی بلائیں لے لوں
خوب تصویر بنائی مرے بہلانے کو
زندگی ساری خیال و خواب کی تصویر کر دی
اس نے اظہارِ محبت میں بڑی تاخیر کر دی
Add Comment