ساھیوال: دہشتگرد کو دہشتگردی کی نظر کر دیا گیا
بیہمانہ قتل
واقعہ ساہیوال ایک بار پھر ہمارے اداروں کی ناکامی اورغیرپروفیشنلزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا یہ Terrorist subjected to Terrorism ہے یا اسٹیٹ ٹیرزم ہے؟ مگراس واقعہ کو گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اطلاعات کے مطابق ذیشان نامی نوجوان کا رابطہ داعش کی دہشتگرد تنظیم کے ساتھ تھا، اور وہ ایک مدت سے انکے ساتھ خط و کتابت میں تھا، ذیشان کے دو مزید ساتھی جو واقعہ ساہیوال کے چند گھنٹے بعد گوجرانوالہ میں مارے گئے، ان کے افغانستان سے رابطے رہے اور یہ لوگ پاکستان میں دہشتگردی کا کوئی منصوبہ تیار کررہے تھے۔
تفصیلات کے مطابق انکے پاس سے اسلحہ اور باردو، خودکش جیکٹس ملی ہیں۔ یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ ذیشان کے قتل کے بعد افغانستان سے فون آئے اور دیگر ساتھیوں کو محتاط رہنے کی ھدایات جاری کی گئیں۔
اگر تو اس سارے واقعے میں صرف ذیشان قتل ہوتا تو شاید یہ قوم سی ٹی ڈی کو مبارک باد دیتی کہ دہشتگردی ہونے سے پہلے ہی اسکا سدِباب کیا گیا۔
مگر اس میں خلیل نامی آدمی اور اسکی بیوی اور ذیشان کی بیوی بھی مارے گئے جبکہ چند معصوم بچے بھی موجود تھے، جوکہ معجزانہ طور پر بچ گئے۔ اب مسئلہ Collateral Damage کا ہے۔ جس میں چند بے گناہ شہریوں کا قتل ہوا ہے۔
پنجاب پولیس
یہاں پر ہمیں بہت ساری باتوں پر توجہ دینی پڑے گی، اول تو یہ ہے کہ پاکستان کی پولیس جنرل طور پر اور پنجاب پولیس خاص طور پر انتہائی غیرپروفیشنل اور کسی بھی قسم کی جدید تعلیم و تربیت سے نابلد ہے۔
پنجاب پولیس کی اکثریت پچھلی حکومتوں کی بدمعاشانہ حرکات کا نتیجہ ہے جس میں بدمعاشوں اور اجڈ جاھلوں کو اٹھا کر پولیس میں بھرتی کر کے قتل و غارت کروائی گئی ہے، عزیربلوچ اور راؤ انوار انکی سب سے بڑی مثال ہیں بیشک وہ سندھ سے تھے۔ مگر خاص کر سندھ اور پنجاب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی جرم پیشہ حکومتوں کا نتجہ ہے۔ وہی legacy پی ٹی آئی کی حکومت کو ملی ہے۔
مان بھی لیا جائے کہ ذیشان کا لنک داعش سے تھا، اور وہ دہشتگردی کے چکر میں خود تھا یا کسی سے کروانے کے لیے آرڈرز لے رھا تھا، مگر کبھی بھی پولیس کو یہ حق نہیں ہوتا کہ وہ یوں سرِ عام کسی پر اندھادھند فائرنگ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دے۔
یہی واقعہ اگر امریکہ میں ہوتا تو گاڑی کو گھیراؤ میں لیا جاتا، اور مجرم کو باھر نکل کے زمین پر لیٹ جانے کا حکم دیا جاتا، پھر اسے گرفتار کیا جاتا، ساتھ ھی باقی تمام افراد اگر گاڑی میں ہوتے انہیں بھی فی الوقت حراست میں لے لیا جاتا۔
سوچا سمجھا منصوبہ؟
اس واقعہ سے یہی سمجھ آتا ہے کہ اس گاڑی میں جو کچھ بھی تھا اور جیسا بھی تھا اسے گولی مار دینے کا حکم دیا گیا تھا۔
اب یہ حکم کہاں سے آیا ؟ کس نے دیا؟ کیوں دیا؟ یہ کبھی سامنے نہیں آ سکتا۔ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ پولیس کے نظام کی جاھلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس پولیس پر کبھی کسی کو یقین تھا ہی نہیں اب کیسے ہو سکتا؟ جس پولیس کو کرپٹ زدہ لیڈران نے اپنے گھر کی ٹائیلٹیں صاف کرنے کے لیے رکھا ہو، اپنے ناخنوں کی میل بنا کر رکھا ہو، اپنے مفاد کے لیے کرائے کے قاتل بنا کر رکھا ہو اس سے انصاف کی امید ہو سکتی ہے؟
یہاں ایک مزید بات جو میری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر سی ٹی ڈی کے تحت گاڑی میں اسلحہ تھا تو گاڑی تک عام لوگوں کی رسائی کیسے ہوئی؟ لوگ اسکی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر کیسے چڑھا سکتے ہیں؟ اسکے پیچھے سوچا سمجھا منصوبہ تھا، جس کا مطلب ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام پھیلانا ہے، یاد رہے کہ زرداری کے عدالت میں پیشگی کی تاریخ قریب ہے۔۔۔
زیرِپریشرحکومت
اس میں اب سارے کا سارا پریشر پی ٹی آئی کی حکومت پر ہے۔
مخالفین جو کبھی خود قتل و غارت اور دہشتگردی کی سب سے اعلیٰ مثال رہے ہیں وہ اپنے ناپاک ماضی کو بھلا کر اس پر خوب سیاست چمکانے کی کوشش کریں گے، وہ اپنی فطرت کے مطابق کام کریں گے یہ بھول جائنگے کہ سب سے اعلیٰ سطح کا قتل بینظیر کا ہوا آج تک اسکا سراغ نہیں لگایا گیا، راؤ انوار سے پیپلز پارٹی نے قتل کروائے مگر ایک کی بھی تفتش نہیں کروائی گئی، عزیربلوچ نے کئی سو افراد کا قتل کیا مگر آج تک اس کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا گیا، چھوٹو گینگ کو استعمال کرتے ہوئے پنجاب میں نون لیگ کی حکومت قتل و غبن و حبسِ بیجا میں ملوث رہی ، گلوبٹوں کے ذریعے کتنے قتل نہیں کروائے؟ مگر کیا آج تک کسی قتل کا فیصل ہوا؟؟؟
میڈیا
میڈیا بھی ہمیشہ کی طرح اس واقعے کو اپنے اپنے چینلز کے ریٹنگ بڑھانے کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہے گا، یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر وہ لوگ جنہیں اردو لکھنا بولنا نہیں آتی وہ بھی اپنی ماہرانہ رائے دیتے نظر آئیں گے۔
کہنا یہ نہیں کہ اسکو بھلا دیا جائے ہرگز نہیں بلکہ اب پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس ایک نادر موقع ہے ، اس واقع کو بنیاد بنا کر وہ اصلاحات لائی جائیں جو عمران خان pre-election کہتا رھا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا موقع ہے پولیس کا نظام بدلا جائے اور بلاتفریق بدلا جائے، اگر پاکستان میں کوئی اس قابل نہیں تو پولیس کا محکمہ بھی ٹھیکے پر اٹھا کر چینیوں کو بھرتی کر لیا جائے۔
رھی بات یہ کہ ذیشان دہشتگرد تھا یا نہیں، یا اسکے داعش کیساتھ رابطے تھے یا نہیں تو ہمارا معاشرہ ایسا معاشرہ ہے کہ والدین ساری عمر گناہ کرتے رہیں یا اولاد سب سے بدترین جرم میں مبتلا ہو، ہم لوگ اسے ماننے کو کہاں تیار ہوتے ہیں؟ کیا اوسامہ بن لادن نے کبھی اپنے آپ کو دہشتگرد مانا؟ یا جو جو اسکے ساتھ چلتا رھا، یا اسے راہِ حق پر سمجھتا رھا اسنے ایسا مانا؟ نہیں!
بقلم: مسعود
Add Comment