بزمِ سخن نظم

کہ تم ہو یاد مجھے

کہ تم ہو یاد مجھے

کہ تم ہو یاد مجھے

کہ تم ہو یاد مجھے!

پلٹ کے دیکھنا چاہو تو نفرتوں سے اُدھر
دِنوں کی راکھ پہ، راتوں کی یخ ہتھیلی پر
ہوا کے ناچتے گرداب کی تہوں میں کہیں
بُجھا ہوا کوئی لمحہ کسی چراغ کا داغ
نظر پڑے تو سمجھنا کہ میں بھی زندہ ہوں

کہ میں بھی زندہ ہوں اپنے اُجاڑ دل کی طرح
اُجاڑ دِل کہ جہاں آج بھی تمہارے بغیر
ہر ایک شام دھڑکتے ہیں خواہشوں کے کواڑ
ہر ایک رات بکھرتی ہے آرزو کی دھنک
ہر ایک صبح دہکتے ہیں زخم زخم گلاب
اُجاڑ دل کہ جہاں آج بھی تمہارے بغیر!
ہر ایک پل مری آنکھوں میں دُھل کے ڈھلتا ہے
تُپکتی رُت کی تپش سے بدن پگھلتا ہے

اُجاڑ دِل کہ جہاں ڈوبتا ہوا سورج
جبینِ وقت پہ لکھتا ہے دُوریوں کا پیام
پلٹ کے دیکھنا چاہو تو نفرتوں سے اُدھر
پسِ غبار درخشاں ہے کب سے ایک ہی نام
وہ نام جس پہ مُسلسل ہے اعتماد مجھے
وہ نام لوحِ جہاں پر اُبھر کے بولتا نام
نظر پڑے تو سمجھنا کہ تم ہو یاد ’’مجھے‘‘

[spacer size=”30″]

شاعر: (اگرآپ کو شاعر کا نام معلوم ہے کو کامنٹس میں لکھیے)

logo 2

About the author

Masood

ایک پردیسی جو پردیس میں رہنے کے باوجود اپنے ملک سے بے پناہ محبت رکھتا ہے، اپنے ملک کی حالت پر سخت نالاں ہے۔ ایک پردیسی جس کا قلم مشکل ترین سچائی لکھنے سے باز نہیں آتا، پردیسی جسکا قلم اس وقت لکھتا ہے دل درد کی شدت سے خون گشتہ ہو جاتا ہے اور اسکے خونِ جگر کی روشنائی سے لکھے ہوئے الفاظ وہ تلخ سچائی پر مبنی ہوتے ہیں جو ہضم مشکل سے ہوتے ہیں۔۔۔ مگر یہ دیوانہ سچائی کا زہر الگنے سے باز نہیں آتا!

Add Comment

Click here to post a comment

Leave a Reply

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Pegham Network Community

FREE
VIEW