امید
طاہر القادری کے لانگ مارچ سے لیکر 11 مئی کے انتخابات تک کا سفر امیدوں اور امنگوں کا سفر تھا۔ قوم میں ایک نئی امید کی لہر دوڑی کہ شاید وہ وقت آ گیا ہےکہ اب پاکستان پر جس پسماندگی کے بادل چھائے ہیں، وہ جھٹنے والے ہیں۔ایک پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ سیاست کے میدان میں سامنے آ رہا ہےجو ایک سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرنے کے لیے برسرِ پیکار ہے۔
قوم change مانگتی ہے اور یہ چینج انہیں علم کی روشنی کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ماضی سے سبق سیکھ نادان!
مگر!
شایدوہ طبقہ اپنے سونامی خیالات کی رو پر ایسا بہتا گیاکہ اس نے اِس قوم کا گہرائی میں جاکر مشاہدہ نہیں کیااور تبدیلی کے جذبات میں ایسا مگن رہا کہ صدیوں کے لگے ہوئے خاندانی غلامی کے زنگ کو بھی نہ پہچان سکا۔یہ بھی نہ پہچان سکا کہ اُس ملک میں جہاں ووٹ اپنا حق سمجھ کر دینے کی بجائے! اپنے پیر مرشد، آقا داتا، مالک سائیں، وڈاوڈیرہ کو دینا فرض سمجھا جاتا ہے،وہاں محض باتوں سے چینج نہیں آیا کرتا۔
وہ یہ بھی نہ پہچان سکا کہ جس قوم میں تعلیم کا معیار نہ ہونے کے برابر ہے۔جہاں علم کو محض رسمی تقاضا پورا کرنے کے لیے حاصل کیا جائے۔ اور جہاں خود الیکشن میں کھڑے ہونے والے لاتعداد لوگوں کو جعلی ڈگریوں کی بنا پر ڈِس کوالیفائی کر دیا جائے! وہاں انتخاب جیتنے کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔
عمران خان اور تحریکِ انصاف شاید پاکستان کے حالات بدلنے کی آخری امید تھا،! وہ امید بھی گل ہو گئی۔
اگلے الیکشن تک عمران کہاں ہوگا،کس حال میں ہو گا یہ ہم نہیں جانتے،مگر الیکشن 2013 میں جو نتجائج سامنے آئے ہیں! وہ صدیوں کی اس علاقائی غلامی کو ظاہر کرنے کے لیے ایک بہت بڑی علامت ہیں۔
سوال
میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں،اگر پاکستانی عوام پیپلزپارٹی سے شدیدنفرت کرتی ہے،اور پیپلزپارٹی کے اس دور کو پاکستان کا انتہائی بھیانک ترین دور کہتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ پپلزپارٹی ابھی بھی 35 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی! اور ابھی بھی پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے؟
وجہ صرف ایک ہے: علاقائی غلامی۔ ابھی بھی لوگ غلامی کے اس دور میں جی رہے ہیں کہ جس سے نکلنا ان کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ان لوگوں نے آج بھی اپنے آقاؤں کو، اپنے ناخداؤں کو ووٹ دینا ہے !چاہے ان کے گھروں میں بجلی تھی یا نہ تھی، چاہے ان کے گھروں میں پینے کو صاف پانی ملتا تھا یا نہیں ملتا تھا۔ووٹ اسی کو دیں گے جو انکے ناخدا ہیں۔
پاکستان کی 70فیصد عوام ایسے ہی علاقوں میں رہتے ہیں! جہاں پر دووقت کی روٹی زندگی کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے۔ایسے علاقے جہاں پر علم عنقا ہے۔علم جل پری ہے۔ علم یونیکورن ہے۔
ووٹ
ایسے علاقوں میں ووٹ صرف انکا ہے جنکا اثرورسوخ ہے۔ دولت پانی کی طرح بہائی جائے اور جہاں پیسے کے بل بوتے پر ایمان خریدا جائے۔جہاں پر لوگوں کو انگلی پکڑ کریا بندوق کی نوک پر ووٹ کے پیپر پر چھاپ لگوائی جائے۔سیاست کا یہ روپ کسی بھی پڑھے لکھے طبقے کے بس کی بات نہیں۔
اگر یہ طبقہ لاہور، کراچی، راولپنڈی، پشاوراور کوئٹہ کو پاکستان سمجھتا ہے تو یہ اسکی بھول ہے۔
پاکستان پسماندگی کے وہ علاقے ہیں جہاں لوگوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ ووٹ ڈال کیوں رہے ہیں؟ جس کو ووٹ ڈال رہے ہیں اس کا منشور کیا ہے؟انہیں بس اتنا سکھا دیا گیا ہے کہ کہاں اور کس نشان پر کراس لگانا ہے،یا انہیں یہ زحمت بھی نہیں دی جاتی، انکا کام ان پارٹیوں کے کارکن خود کردیتے ہیں۔کراچی سے خبرآئی ہے کہ متحدہ کے کارکن خود سے سو سو پپرز پر چھاپ لگا کر ڈالتے رہے ہیں۔
کرپٹ
حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک ہنوز جاہلیت کے اُس دور میں کھڑا ہے جہاں سے اسے تہیذیب و تمدن کی روشنی میں آنےکے لیے کئ سال درکار ہیں۔
اگر ہم الیکشن 2013 کی روشنی میں بھی یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ ہمارا سب سے بڑا مسلہ کیا ہے؟ تو ہم کبھی نہیں سمجھ سکیں گے۔ہمارا سب سے بڑا مسلہ جاگیردارانہ نظام ہے۔ جب تک صدیوں کی غلامی کا یہ نظام درہم برہم نہیں کیا جاتا، ہمارا ملک ترقی حاصل نہیں کرسکتا۔یہ نظام کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ تعلیم عام کی جائے، تعلیم عام ہوئی تو لوگ اپنا حق مانگیں گے، لوگ اپنا حق مانگنے لگے تو یہ نظام اور اس نظام کے ناخدا کدھر جائیں گے؟
ہم لوگ شخصیت پرست ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ جسے ہم شیخ الاسلام کہتے ہیں اس نے بھی لانگ مارچ کے ڈھونگ میں عوام کو بری طرح مجروح کیا، مگر کیا ہم اسکے خلاف آواز اُٹھا سکتے ہیں؟
ہم نے دیکھ لیا ہے کہ مشرف نے جس چیف جسٹس پر ہاتھ ڈالا تھا، اور جسکی کرسی کو بحال کرنے کے لیے لانگ مارچ کیا گیا تھا، اس کی موجودگی میں بھی انصاف نہ ہونے کے برابر ہے، مگر ہم اس کو بھی اگنور کیے بیٹھے ہیں اور چیف جسٹس اپنی کرسی پر موجیں مار رہا ہے۔
منافق
پاکستانی عوام منافق ہے!
ہم اپنی تباہی کا سودا خودکرتے ہیں اور پھر خود ہی بیٹھے روتے ہیں۔ہمارے کند ذہنوں کو یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ ماضی کے بارے میں کیا سوچنا؟ جو گزرگیا سوگزرگیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔
اگر ہم یہ سوچیں کہ ہم سے کہاں کہاں غلطی ہوئی ہے تو شاید ہم اپنی غلطیوں کو درست کر لیں، مگر ہمارے ہاں کسی دوسرے کے تجربے سے فائدہ اٹھانا اپنی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
66 سال! 66سال کی تباہی!! 66سال!!! اور ہم آج بھی وہی کے وہیں کھڑے ہیں!
جو قوم اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھتی اسکا حال ایسا ہی ہوتا ہے جیسا اب ہمارا ہے۔
چیف جسٹس کی بحالی پاکستان کی تباہی تھی!
پیپلزپارٹی کا اقتدار پاکستان کی رگوں سے خون نچوڑنے والی بات ہے!
طاہرالقادری کا لانگ مارچ پاکستانی عوام کو سرِعام بےآبرو کرنے والی بات تھی!
نوازشریف جیسے خبیث کا اقتدار پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے!
الیکشن 2013 پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ہے!
ہماری نجات صرف اور صرف انقلاب میں ہے۔
انقلاب
پاکستان کو ایک خونی انقلاب کی ضرورت ہے، جس میں جاگیردارانہ نظام کی سوچ رکھنے والوں کا سر قلم کیا جائے۔اسکے سوا پاکستان کی ترقی کا اور کوئی حل نہیں!
اس نظام نے اس ملک کی جڑیں اسقدر کھوکھلی کررکھی ہیں کہ اگران پرچھت ڈالی گئی تو ناتواں ہو گی۔ اگر کسی دیوار کی بنیادی اینٹٰیں ہی ٹیڑھی رکھدی جائٰیں تو آسمان تک وہ دیوار ٹٰیڑھی ہی بنی گی۔
یہی ہم کررہے ہیں۔ 66 سال کا نقصان برداشت کر کے ہمیں اس دیوار کو گرانا ہو گا ، ورنہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ کہنے کے ہرگز روادار نہیں کہ ہمارے تجربے سے فائدہ اٹھاؤ۔
ماضی سے سبق سیکھ نادان ماضی سے سبق سیکھ نادان ماضی سے سبق سیکھ نادان ماضی سے سبق سیکھ نادان ماضی سے سبق سیکھ نادان ماضی سے سبق سیکھ نادان ماضی سے سبق سیکھ نادان
مسعود کوپن ہیگن ، مئی 2013
Tahir ul Qadri, Imran Khan, Pakistan election 2013, Inqilaab
Add Comment